فَسَقَىٰ لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّىٰ إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ
تو اس نے ان کے لیے پانی پلا دیا، پھر پلٹ کر سائے کی طرف آگیا اور اس نے کہا اے میرے رب! بے شک میں، جو بھلائی بھی تو میری طرف نازل فرمائے، اس کا محتاج ہوں۔
1۔ فَسَقٰى لَهُمَا: پیغمبروں میں فطری طور پر ہمدردی کا بے پناہ جذبہ ہوتا ہے، جیسا کہ اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا: ((كَلَّا، وَاللّٰهِ! مَا يُخْزِيْكَ اللّٰهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَ تَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَ تَقْرِي الضَّيْفَ وَ تُعِيْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ )) [ بخاري، بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي ....: ۳ ] ’’ہر گز (ایسا) نہیں (ہو گا)، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، کیونکہ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں اور بے کسوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور بے روز گار کے لیے کام ڈھونڈھتے ہیں اور مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی طرف سے آنے والی مصیبتوں پر مدد کرتے ہیں۔‘‘موسیٰ علیہ السلام تھکے ماندے اور بھوکے پیاسے تھے، اس کے باوجود انھوں نے ان کی بکریوں کو پلانی پلا دیا۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے یہاں ابن ابی شیبہ کی ایک روایت نقل کی ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’موسیٰ علیہ السلام جب مدین کے پانی پر پہنچے تو وہاں لوگوں کی ایک جماعت کو پایا جو پانی پلا رہے تھے۔ جب وہ فارغ ہو گئے تو انھوں نے کنویں پر دوبارہ پتھر رکھ دیا، جسے دس آدمی ہی اٹھا سکتے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ دو عورتیں ہیں جو اپنے جانوروں کو ہٹا رہی ہیں، ان سے پوچھا : ’’تمھارا معاملہ کیا ہے؟‘‘ انھوں نے اپنا ماجرا بیان کیا، تو آپ نے جا کر وہ پتھر اٹھایا اور ایک ہی ڈول نکالا تھا کہ بکریاں سیراب ہو گئیں۔‘‘ [ ابن کثیر :6؍227 ] ابن کثیر نے فرمایا : ’’اس کی سند صحیح ہے، حاکم نے بھی اسے صحیح کہا اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔‘‘ 2۔ ثُمَّ تَوَلّٰى اِلَى الظِّلِّ: بقاعی لکھتے ہیں : ’’پھر جس طرف ان کا رخ تھا اس طرف پیٹھ کر کے سائے کی طرف چلے گئے، تاکہ وہاں آرام کر سکیں اور مخلوق کی خیر خواہی اور مدد کے بعد خالق کی طرف متوجہ ہوئے۔ ’’ الظِّلِّ ‘‘ کو معرفہ اس لیے ذکر فرمایا کہ جہاں لوگ کثرت سے آتے جاتے ہوں وہاں سائے کی موجودگی انوکھی نہیں، بلکہ جانی پہچانی بات ہے، خصوصاً جہاں پانی بھی ہو۔‘‘ 3۔ فَقَالَ رَبِّ اِنِّيْ لِمَا اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ: اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے موسیٰ علیہ السلام نے اس کی صفات میں سے صفت ’’رب‘‘ کے واسطے سے دعا کی، کیونکہ اس وقت ان کا حال صفت ربوبیت سے فریاد کا تقاضا کرتا تھا۔ بھوک اتنی کہ پیٹ پیٹھ سے لگا ہوا تھا۔ بے وطنی ایسی کہ کوئی واقفیت نہ کوئی مونس و غم خوار، کوئی گھر نہ ٹھکانا، دشمن کے تعاقب کا مسلسل خوف، غرض ہر لحاظ سے فقر ہی فقر۔ ایسی حالت میں انھوں نے کسی مخلوق کے ساتھ شکوہ نہیں کیا، بلکہ اپنے رب ہی کی جناب میں درخواست پیش کی کہ اے میرے پالنے والے! میں تو جو خیر بھی تو میری طرف نازل فرمائے اس کا محتاج ہوں۔ ’’نازل فرمائے‘‘ کا لفظ اس لیے بولا کہ آدمی کو جو کچھ ملتا ہے آسمان سے آتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ فِي السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ ﴾ [الذاریات : ۲۲ ]’’اور آسمان ہی میں تمھارا رزق ہے اور وہ بھی جس کا تم وعدہ دیے جاتے ہو۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی یہ دعا نہایت جامع دعا ہے، دنیا اور آخرت کی کوئی بھلائی ایسی نہیں جو اس میں نہ آگئی ہو۔ طویل سفر کے بعد غربت اور فقر و فاقہ کی حالت میں عجزو انکسار سے بھری ہوئی یہ جامع دعا موسیٰ علیہ السلام کے لبوں سے نکلی تو ساتھ ہی قبولیت کے آثار بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔