فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا يَتَرَقَّبُ ۖ قَالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
تو وہ ڈرتا ہوا اس سے نکل پڑا، انتظار کرتا تھا، کہا اے میرے رب! مجھے ان ظالم لوگوں سے بچالے۔
فَخَرَجَ مِنْهَا خَآىِٕفًا يَّتَرَقَّبُ ....: ’’ يَتَرَقَّبُ ‘‘ ’’رَقَبَةٌ ‘‘ سے ہے، گردن پھیرکر ادھر ادھر دیکھنا، انتظار کرنا۔ موسیٰ علیہ السلام کے علم میں یہ بات آئی تو فوراً اکیلے ہی اس شہر سے نکل کھڑے ہوئے۔ اس سے پہلے انھیں ایسا کوئی سابقہ پیش نہیں آیا تھا، بلکہ وہ شہزادے کی حیثیت سے نہایت خوش حالی کے ساتھ راحت و آرام کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اب شہر سے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے دشمن کی گرفت سے بچتے ہوئے نکلے، اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے میرے رب! جس طرح تو نے میری معجزانہ طریقے سے پرورش فرمائی مجھے ان ظالم لوگوں سے نجات عطا فرما۔ ظالم اس لیے فرمایا کہ پہلے بے شمار مظالم کے علاوہ ان کا تازہ ترین ظلم یہ تھا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے در پے ہو گئے تھے، جو صریح ظلم تھا، کیونکہ قتل خطا کی سزا کسی قانون میں بھی قتل نہیں ہے۔