فَأَصْبَحَ فِي الْمَدِينَةِ خَائِفًا يَتَرَقَّبُ فَإِذَا الَّذِي اسْتَنصَرَهُ بِالْأَمْسِ يَسْتَصْرِخُهُ ۚ قَالَ لَهُ مُوسَىٰ إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُّبِينٌ
غرض اس نے شہر میں ڈرتے ہوئے صبح کی، انتظار کرتا تھا، تو اچانک وہی شخص جس نے کل اس سے مدد مانگی تھی، اس سے فریاد کر رہا تھا۔ موسیٰ نے اس سے کہا یقیناً تو ضرور کھلاگمراہ ہے۔
فَاَصْبَحَ فِي الْمَدِيْنَةِ خَآىِٕفًا يَّتَرَقَّبُ ....: موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں قبطی قتل ہو گیا تھا، اس لیے انھوں نے شہر میں اس حال میں صبح کی کہ کل کے واقعہ سے خوف زدہ تھے اور انتظار کر رہے تھے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اور کب کوئی انھیں گرفتار کرنے کے لیے آتا ہے۔ اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ وہی اسرائیلی جس نے کل ان سے ایک قبطی سے بچانے کے لیے مدد مانگی تھی، وہ ایک اور قبطی سے لڑ رہا ہے۔ جب موسیٰ علیہ السلام وہاں سے گزرے تو اس نے چیخ چیخ کر انھیں مدد کے لیے پکارنا شروع کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام کل کے واقعہ سے آزردہ تھے، اسے کہنے لگے، یقیناً تو کھلا گمراہ شخص ہے، یعنی ہر روز کسی نہ کسی سے لڑتا جھگڑتا رہتا ہے، کل ایک شخص سے لڑ رہا تھا، آج ایک اور سے جھگڑ ا مول لیے کھڑا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ کل تیرے سبب سے میں ایک جان کو قتل کر چکا ہوں، اب تو نے پھر وہی ماحول بنا دیا ہے۔ پھر جوں ہی موسیٰ علیہ السلام نے اس قبطی کو پکڑنے کا ارادہ کیا، چونکہ انھوں نے ابھی اسرائیلی کو ڈانٹا تھا، اس لیے وہ موسیٰ علیہ السلام کے تیور دیکھ کر ڈر گیا اور سمجھا کہ وہ اسے پکڑنا چاہتے ہیں۔ اس نے جان بچانے کے لیے کہا، موسیٰ! تم مجھے بھی قتل کرنا چاہتے ہو! جیسے تم نے کل ایک بندہ قتل کر دیا تھا۔ اس سے پہلے یہ راز موسیٰ اور اسرائیلی کے سوا کسی کو معلوم نہ تھا۔ قبطی نے یہ بات سنی تو فوراً جا کر فرعون کو اطلاع دی، فرعون شدید غضب ناک ہوا اور اس نے خود اپنے سرداروں کی مجلس بلا کر فیصلہ کیا کہ اب اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ موسیٰ کو قتل کر دیا جائے۔ ’’ فَلَمَّا اَنْ اَرَادَ ‘‘ میں ’’ اَنْ ‘‘ کے فائدے کے لیے دیکھیے سورۂ یوسف (۹۶)۔