قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
کہا اے میرے رب! یقیناً میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، سو مجھے بخش دے۔ تو اس نے اسے بخش دیا، بے شک وہی تو بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
1۔ قَالَ رَبِّ اِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ فَاغْفِرْ لِيْ....: گو موسیٰ علیہ السلام نے جان بوجھ کر قتل نہیں کیا تھا، مگر پیغمبروں کی شان بڑی ہے، ان کی شان کے لحاظ سے یہ بے احتیاطی بھی مناسب نہ تھی، اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اسے گناہ سمجھا اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کے طلب گار ہوئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مغفرت فرما دی، مگر موسیٰ علیہ السلام اس کے بعد بھی نادم رہے اور قیامت کے دن جب لوگ ان کے پاس جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہماری شفاعت کیجیے تو اپنی ندامت کا اظہار ان الفاظ میں کریں گے: (( إِنِّيْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُوْمَرْ بِقَتْلِهَا )) [ مسلم، الإیمان، باب أدنٰی أھل الجنۃ منزلۃ فیھا : ۱۹۴ ] ’’میں نے ایک شخص قتل کر دیا جس کے قتل کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا۔‘‘ 2۔ قرآن کے بیان سے ظاہر ہے کہ موسیٰ علیہ السلام سے یہ قتل نا دانستہ ہوا تھا، مگر بائبل موسیٰ علیہ السلام کو قتلِ عمد کا مجرم ٹھہراتی ہے۔ چنانچہ اس کی روایت ہے کہ ’’مصری اور اسرائیلی کو لڑتے دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام نے اِدھر اُدھر نگاہ کی اور جب دیکھا کہ وہاں کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے، تو اس مصری کو جان سے مار کر اسے ریت میں چھپا دیا۔‘‘ (خروج : ۲ : ۱۲) یہ یہود کی ان تحریفات میں سے ہے جن کی اصلاح قرآن نے فرمائی، جو پہلی تمام کتابوں پر مہیمن ہے۔ 3۔ موسیٰ علیہ السلام کی دعا ’’ فَاغْفِرْ لِيْ ‘‘ میں بخشش کی درخواست کے ساتھ پردہ ڈالنے کی درخواست کا مفہوم بھی شامل ہے۔ ’’مِغْفَرٌ ‘‘ اس خَود کو کہتے ہیں جس کے ساتھ جنگ میں سر ڈھانپتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو معاف فرما دیا اور اس واقعہ پر پردہ بھی ڈال دیا اور اگلے دن پیش آنے والے واقعہ تک کسی کو خبر نہیں ہوئی کہ قتل کس نے کیا ہے۔