فَرَدَدْنَاهُ إِلَىٰ أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
تو ہم نے اسے اس کی ماں کے پاس واپس پہنچا دیا، تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور وہ غم نہ کرے اور تاکہ وہ جان لے کہ یقیناً اللہ کا وعدہ سچ ہے اور لیکن ان کے اکثر نہیں جانتے۔
1۔ فَرَدَدْنٰهُ اِلٰى اُمِّهٖ: یعنی ہم نے موسیٰ علیہ السلام کی ماں سے جو وعدہ کیا تھا کہ اسے تمھارے پاس واپس لائیں گے، اتنی دیر ہی میں پورا کر دیا جتنی دیر کوئی بچہ ماں کے دودھ کے بغیر گزار سکتا ہے۔ 2۔ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا: ’’قَرَّ يَقِرُّ (ض، ع) قُرَّةً وَ قُرُوْرًا‘‘ ’’آنکھ کا ٹھنڈا ہونا۔‘‘ تاکہ اس کی آنکھ جو بیٹے کی جدائی میں سکون سے ناآشنا تھی، آنسو بہا بہا کر اور بیدار رہ کر سرخ اور گرم ہو چکی تھی، بیٹے کے واپس ملنے، اسے دودھ پلانے اور اپنے پاس رکھنے سے ٹھنڈی اور پرسکون ہو جائے اور آرام کی نیند سو جائے اور غم زدہ نہ رہے۔ نکتہ : اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کے اعضا کا درجہ حرارت مختلف رکھا ہے، اس کی جلد کا درجہ حرارت عموماً 37 ڈگری ہوتا ہے۔ جگر کو کام کرنے کے لیے 40 ڈگری کے قریب درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ آنکھ کا درجہ حرارت زیادہ سے زیادہ 9 ڈگری ہوتا ہے، اس سے زیادہ ہو جائے تو آنکھ پگھل کر بہ جائے، اس لیے دل کی خوشی کے لیے آنکھ کی ٹھنڈک کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ (شعراوی) 3۔ قدیم زمانے میں ان ممالک کے بڑے اور خاندانی لوگ بچوں کو اپنے ہاں پالنے کے بجائے دودھ پلانے والی عورتوں کے سپرد کر دیتے تھے۔ خود ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حلیمہ سعدیہ کے ہاں صحرا میں پرورش پائی۔ اس کے مطابق موسیٰ علیہ السلام کو ان کی والدہ اپنے گھر لے گئیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے بیٹے کو واپس لانے کا جو وعدہ کیا تھا وہ بھی پورا ہوا اور شاہی خزانے سے ماں کو جو وظیفہ ملتا رہا وہ اس کے علاوہ تھا۔ 4۔ اس مقام پر بعض مفسرین نے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَثَلُ الَّذِيْ يَعْمَلُ وَ يَحْتَسِبُ فِيْ صِنْعَةِ الْخَيْرِ كَمَثَلِ أُمِّ مُوْسٰی تُرْضِعُ وَلَدَهَا وَ تَأْخُذُ أَجْرَهَا(( ’’وہ شخص جو کام کرے اور اپنے کام میں نیکی کی نیت رکھے، اس کی مثال موسیٰ کی والدہ کی سی ہے، جو اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے اور اپنی مزدوری وصول کرتی ہے۔‘‘ مگر ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت حدیث کی کسی کتاب میں نہیں ہے، البتہ ایک مرسل روایت ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے: (( مَثَلُ الَّذِيْنَ يَغْزُوْنَ مِنْ أُمَّتِيْ وَ يَأْخُذُوْنَ الْجُعْلَ يَتَقَوَّوْنَ بِهِ عَلٰی عَدُوِّهِمْ كَمَثَلِ أُمِّ مُوْسٰي تُرْضِعُ وَلَدَهَا وَ تَأْخُذُ أَجْرَهَا (( ’’میری امت کے جو لوگ جنگ کرتے ہیں اور وظیفہ لیتے ہیں، جس کے ساتھ دشمن کے مقابلے میں قوت حاصل کرتے ہیں، ان کی مثال ام موسیٰ کی سی ہے جو اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے اور اپنی مزدوری وصول کرتی ہے۔‘‘ یہ روایت مرسل (جو ضعیف کی ایک قسم ہے) ہونے کے علاوہ سند کے لحاظ سے بھی ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ’’ سلسلة الأحاديث الضعيفة للألباني (ح : ۴۵۰۰)‘‘ اس حدیث میں جو بات بیان ہوئی ہے اگرچہ فی نفسہ درست ہے، جو اپنی طرف سے بطور مثال بیان کی جا سکتی ہے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے وہی بات لگانے کی اجازت ہے جو آپ سے ثابت ہو، ورنہ ’’ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ ‘‘ کی وعید کا مصداق بننے کا خطرہ ہے۔ 5۔ وَ لِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ: یعنی ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو اس کی ماں کے پاس واپس پہنچا دیا، تاکہ اسے پہلے وحی کے ذریعے سے سن کر اللہ کا وعدہ حق ہونے کا علم تھا، تو اب آنکھوں سے دیکھ کر اس کے حق ہونے کا علم ہو جائے۔ پہلے اگر علم الیقین تھا تو اب عین الیقین ہو جائے۔ (بقاعی) 6۔ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ: یعنی اکثر لوگ نہیں جانتے کہ اللہ کا وعدہ حق ہے۔ ان کا حال یہ ہے کہ جوں ہی کسی کام میں کوئی مشکل پیش آتی ہے، اللہ تعالیٰ سے بدظن ہو جاتے ہیں اور انھیں اللہ کے وعدے پر یقین نہیں رہتا، حالانکہ اس کا وعدہ خلاف نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ اسباب کو کچھ اس طرح پھیر کر لاتا ہے جو انسانی سمجھ سے باہر ہوتا ہے اور جس چیز کا گمان بھی نہیں ہوتا وہ آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے۔ پھر بعض اوقات آدمی ایک چیز کو برا سمجھتا ہے جب کہ وہ اس کے حق میں بہتر ہوتی ہے اور ایک چیز کو اچھا سمجھتا ہے جب کہ وہ اس کے حق میں بری ہوتی ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۱۶) اور نساء (۱۹)۔ ہاں مشو نومید چوں واقف نہ ای ز اسرارِ غیب باشد اندر پردہ بازی ہائے پنہاں غم مخور ’’خبردار! ناامید نہ ہو، کیونکہ تو غیب کے اسرار سے واقف نہیں۔ پردے کے اندر کئی پوشیدہ کھیل ہو رہے ہوتے ہیں، غم مت کر۔‘‘