وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَىٰ فَارِغًا ۖ إِن كَادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلَا أَن رَّبَطْنَا عَلَىٰ قَلْبِهَا لِتَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
اور موسیٰ کی ماں کا دل خالی ہوگیا۔ یقیناً وہ قریب تھی کہ اسے ظاہر کر ہی دیتی، اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ہم نے اس کے دل پر بند باندھ دیا تھا، تاکہ وہ ایمان والوں میں سے ہو۔
1۔ وَ اَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰى فٰرِغًا: اوپر ان کا حال بیان ہوا جنھیں وہ بچہ ملا، اب اس کا حال بیان ہوتا ہے جس سے وہ جدا ہوا۔ ابن ابی حاتم نے صحیح سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے نقل فرمایا ہے کہ انھوں نے اس کی تفسیر میں فرمایا: (( فَارِغًا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ غَيْرِ ذِكْرِ مُوْسٰی(( ’’موسیٰ علیہ السلام کی ماں اتنی بے قرار ہو گئی کہ اس کا دل موسیٰ کی یاد کے سوا ہر چیز سے خالی ہو گیا۔‘‘ 2۔ اِنْ كَادَتْ لَتُبْدِيْ بِهٖ: یہ’’ اِنْ ‘‘ اصل میں ’’إِنَّ‘‘ ہے، جس کا اسم محذوف ہے۔ دلیل اس کی ’’ لَتُبْدِيْ بِهٖ ‘‘ پر آنے والا لام ہے۔ محذوف کو ظاہر کریں تو عبارت ہو گی : ’’إِنَّهَا كَادَتْ لَتُبْدِيْ بِهِ‘‘ یعنی وہ بے قراری کی وجہ سے قریب تھی کہ اس کا معاملہ ظاہر کر دیتی کہ ہائے میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنا بچہ دریا میں پھینک دیا۔ 3۔ لَوْ لَا اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰى قَلْبِهَا لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ: یعنی ہم نے اس سے جو وعدہ کیا تھا کہ’’ اِنَّا رَادُّوْهُ اِلَيْكِ ‘‘ (ہم اسے تیرے پاس واپس لانے والے ہیں) اس پر اس کا ایمان پختہ رکھنے کے لیے ہم نے اس کے دل پر صبر کا بند باندھ دیا اور اس کی ڈھارس بندھا دی، اگر یہ نہ ہوتا تو وہ قریب تھی کہ بچے کا راز خود ہی فاش کر دیتی، مگر ہمارے بند باندھنے کی وجہ سے وہ قائم رہی۔