سورة النمل - آیت 82

وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب ان پر بات واقع ہوجائے گی تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے، جو ان سے کلام کرے گا کہ یقیناً فلاں فلاں لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ ....: یعنی جس وعید کو یہ لوگ جھٹلا رہے ہیں اور اسے لانے کی جلدی مچا رہے ہیں، جب اس کا وقت آ جائے گا تو ہم زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو انوکھی قسم کا ہو گا (تنوین تنکیر سے انوکھے کا مفہوم پیدا ہو رہا ہے)۔ وہ جانور قیامت کی علامات میں سے ہو گا، اس کے بعد ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا، کیونکہ آخرت کی حقیقتوں سے حجاب اٹھنے کے بعد آزمائش کا مقصد ختم ہو جاتا ہے۔ بعض تفاسیر میں ہے کہ وہ جانور ستر ہاتھ لمبا ہو گا، اس کی چار ٹانگیں اور دو پر ہوں گے، اس کے پاس موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی ہو گی وغیرہ۔ مگر کسی صحیح حدیث میں اس جانور کی کیفیت بیان نہیں ہوئی، اس لیے ہمیں اتنا ہی کافی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا۔ بعض لوگوں نے اسے حدیثِ دجّال میں مذکور جانور ’’جساسہ ‘‘ قرار دیا ہے اور بعض نے یاجوج ماجوج، مگر یہ سب اندھیرے میں تیر ہیں۔ تُكَلِّمُهُمْ: وہ جانور لوگوں سے بات کرے گا۔ قیامت کے قریب اس قسم کے عجیب و غریب واقعات کثرت سے ہوں گے کہ وہ چیزیں جو عام طور پر کلام نہیں کرتیں، کلام کریں گی۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ! لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی تُكَلِّمَ السِّبَاعُ الْإِنْسَ، وَ حَتّٰی يُكَلِّمَ الرَّجُلَ عَذَبَةُ سَوْطِهِ وَشِرَاكُ نَعْلِهِ وَتُخْبِرُهُ فَخِذُهُ بِمَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ بَعْدَهُ )) [ترمذي، الفتن، باب ما جاء في کلام السباع : ۲۱۸۱، و قال الألباني صحیح و رواہ أحمد :3؍84، ح : ۱۱۷۹۸ ] ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ درندے انسانوں سے کلام کریں گے اور آدمی سے اس کے کوڑے کا کنارا اور جوتے کا تسمہ بات کرے گا اور اس کی ران اسے بتائے گی کہ اس کے گھر والوں نے اس کے بعد کیا کیا۔‘‘ حتیٰ کہ جب قیامت بالکل قریب ہو گی اور اس کی علاماتِ خاصہ کا ظہور شروع ہو گا، جن کے ظاہر ہونے کے بعد کسی کا ایمان لانا قبول نہیں ہو گا (دیکھیے انعام : ۱۵۸) اس وقت وہ جانور زمین سے نکلے گا۔ حذیفہ بن اُسید غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالا خانے سے ہمیں جھانک کر دیکھا، ہم قیامت کے بارے میں باتیں کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إِنَّهَا لَنْ تَقُوْمَ حَتّٰی تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ، فَذَكَرَ الدُّخَانَ، وَالدَّجَّالَ، وَالدَّابَّةَ، وَ طُلُوْعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَنُزُوْلَ عِيْسَی ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ، وَيَأْجُوْجَ وَ مَأْجُوْجَ، وَثَلَاثَةَ خُسُوْفٍ، خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ، وَ خَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَ خَسْفٌ بِجَزِيْرَةِ الْعَرَبِ، وَ آخِرُ ذٰلِكَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْيَمَنِ، تَطْرُدُ النَّاسَ إِلٰي مَحْشَرِهِمْ )) [ مسلم، الفتن، باب في الآیات التي تکون قبل الساعۃ : ۲۹۰۱ ] ’’قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ تم دس نشانیاں دیکھو۔‘‘ اور آپ نے وہ نشانیاں شمار کیں کہ سورج کا اس کے مغرب سے طلوع ہونا، دخان (دھواں)، دابہ (زمین سے نکلنے والا جانور)، یاجوج ماجوج کا نکلنا، عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام اور دجال کا نکلنا اور تین خسف (زمین کا دھنس جانا) ایک خسف مغرب میں، ایک خسف مشرق میں اور ایک خسف جزیرۂ عرب میں اور آخر میں یمن سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو ہانکتی ہوئی ان کے محشر کی طرف لے جائے گی۔‘‘ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی، جو میں ابھی تک نہیں بھولا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: (( إِنَّ أَوَّلَ الْآيَاتِ خُرُوْجًا، طُلُوْعُ الشَّمْسِ مِنْ مَّغْرِبِهَا، وَخُرُوْجُ الدَّابَّةِ عَلَی النَّاسِ ضُحًی، وأَيُّهُمَا مَا كَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِهَا، فَالْأُخْرٰی عَلٰی إِثْرِهَا قَرِيْبٌ )) [ مسلم، الفتن، باب في خروج الدجال....: ۲۹۴۱ ] ’’آیات (نشانیوں) میں سب سے پہلی سورج کا اس کے مغرب سے طلوع ہونا اور دابہ (ایک جانور) کا دوپہر کے وقت لوگوں کے سامنے نکلنا، ان میں سے جو بھی دونوں سے پہلے ہو گی، دوسری اس کے بعد قریب ہی ظاہر ہو جائے گی۔‘‘ ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( تَخْرُجُ الدَّابَّةُ فَتَسِمُ النَّاسَ عَلٰی خَرَاطِيْمِهِمْ، ثُمَّ يُغْمَرُوْنَ فِيْكُمْ حَتّٰی يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ الْبَعِيْرَ فَيَقُوْلَ مِمَّنِ اشْتَرَيْتَهُ؟ فَيَقُوْلُ اشْتَرَيْتُهُ مِنْ أَحَدِ الْمُخَطَّمِيْنَ )) [مسند أحمد :5؍ 268، ح :۲۲۳۷۱۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ۳۲۲ ] ’’(زمین سے) ایک جانور نکلے گا، جو لوگوں کی پیشانیوں پر نشان لگائے گا اور وہ (نشان زدہ) لوگ بہت زیادہ ہو جائیں گے، حتیٰ کہ آدمی کسی سے اونٹ خریدے گا تو کوئی پوچھے گا کہ یہ تو نے کس سے خریدا ہے؟ وہ جواب دے گا کہ میں نے یہ کسی نشان زدہ سے خریدا ہے۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((بَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ سِتًّا طُلُوْعَ الشَّمْسِ مِنْ مَّغْرِبِهَا، أَوِ الدُّخَانَ، أَوِ الدَّجَّالَ، أَوِ الدَّابَّةَ، أَوْ خَاصَّةَ أَحَدِكُمْ، أَوْ أَمْرَ الْعَامَّةِ )) [مسلم، الفتن، باب في بقیۃ من أحادیث الدجال : ۲۹۴۷ ] ’’چھ چیزوں سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کر لو، ایک سورج کا مغرب سے نکلنا، دوسری دخان (دھواں)، تیسری دجّال، چوتھی زمین کا جانور، پانچویں موت اور چھٹی قیامت۔‘‘ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا....: اس کی ایک تفسیر وہ ہے جس کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے کہ ’’ النَّاسَ ‘‘ سے مراد مخصوص لوگ ہیں، یعنی وہ جانور لوگوں سے یہ کلام کرے گا کہ فلاں فلاں لوگ (النَّاسَ) ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے، یعنی وہ ایمان نہ لانے والوں کی نشان دہی کرے گا، جیسا کہ اوپر عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما کی حدیث میں گزرا ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ’’ اَنَّ النَّاسَ ‘‘ سے پہلے لام محذوف ہے، گویا عبارت یوں ہے : ’’ تُكَلِّمُهُمْ لِأَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰيَاتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ‘‘ یعنی وہ دابہ ان سے کلام کرے گا، کیونکہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے۔ اس صورت میں اس دابّہ کا کلام کرنا ہی قیامت کی نشانی ہو گا۔ دونوں معنوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پہلی صورت میں یہ’’اَنَّ النَّاسَ‘‘جانور کا کلام ہے اور بعد والے معنی کے لحاظ سے ’’اَنَّ النَّاسَ ‘‘ کے ساتھ جانور کے نکلنے یا اس کے کلام کرنے کی وجہ بیان ہوئی ہے۔