سورة النمل - آیت 80

إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک تو نہ مردوں کو سناتا ہے اور نہ بہروں کو اپنی پکار سناتا ہے، جب وہ پیٹھ پھیر کر پلٹ جائیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ ....: یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی ہے کہ آپ ان لوگوں کے قرآن پر ایمان نہ لانے سے دل گرفتہ نہ ہوں، ضد، عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے انھوں نے طے کر رکھا ہے کہ انھوں نے ایمان لانا ہی نہیں۔ یہ کافر لوگ مردوں کی طرح ہیں، جنھیں دعوت دینا اور نصیحت کی کوئی بات سنانا قطعی سود مند نہیں اور یہ ان بہروں کی طرح ہیں جو پیٹھ دے کر بھاگ رہے ہوں۔ اگر وہ سامنے دیکھ رہے ہوتے تو شاید توجہ کے ساتھ کچھ سمجھ جاتے، مگر پیٹھ دے کر بھاگنے کی صورت میں تو ممکن ہی نہیں کہ وہ کوئی بات سن سکیں۔ روحانی موت اور روحانی بہرے پن کو جسمانی موت اور جسمانی بہرے پن کے ساتھ تشبیہ سے ظاہر ہے کہ مردوں کو کوئی بات سنائی نہیں جا سکتی۔ یہ نفی عام ہے، اس سے صرف وہ مواقع مستثنیٰ ہیں جو دلیل (کتاب و سنت) سے ثابت ہوں اور وہ صرف دو ہیں، ان کے علاوہ کسی آیت یا صحیح حدیث سے مردوں کا سننا ثابت نہیں۔ ایک موقع وہ ہے جو انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اَلْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِيْ قَبْرِهِ وَتُوُلِّيَ وَ ذَهَبَ أَصْحَابُهُ حَتّٰی إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ، أَتَاهُ مَلَكَانِ فَأَقْعَدَاهُ فَيَقُوْلَانِ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُوْلُ فِيْ هٰذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ؟ فَيَقُوْلُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللّٰهِ وَ رَسُوْلُهُ، فَيُقَالُ انْظُرْ إِلٰی مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ أَبْدَلَكَ اللّٰهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّةِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فَيَرَاهُمَا جَمِيْعًا، وَ أَمَّا الْكَافِرُ أَوِ الْمُنَافِقُ فَيَقُوْلُ لَا أَدْرِيْ، كُنْتُ أَقُوْلُ مَا يَقُوْلُ النَّاسُ، فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ، ثُمَّ يُضْرَبُ بِمِطْرَقَةٍ مِّنْ حَدِيْدٍ ضَرْبَةً بَيْنَ أُذُنَيْهِ فَيَصِيْحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيْهِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ )) [بخاري، الجنائز، باب المیت یسمع ....: ۱۳۳۸ ]’’بندہ جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس سے رخ پھیر لیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس چل دیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے، تو اس کے پاس دو فرشتے آ جاتے ہیں، اسے بٹھا دیتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں : ’’اُس شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو کیا کہتا ہے؟‘‘ وہ جواب دیتا ہے : ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘ تو اس سے کہا جاتا ہے : ’’جہنم میں اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھ، اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں تیرے لیے ایک ٹھکانا جنت میں بنا دیا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’پھر اس بندۂ مومن کو جنت و جہنم دونوں دکھائی جاتی ہیں۔ اور رہا کافر یا منافق تو وہ (اس سوال کے جواب میں) کہتا ہے : ’’مجھے نہیں معلوم، میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا، وہی میں بھی کہتا رہا۔‘‘ تو اسے کہا جاتا ہے : ’’نہ تو نے کچھ سمجھا اور نہ (اچھے لوگوں کی) پیروی کی۔‘‘ اس کے بعد ہتھوڑے کے ساتھ اس کے دونوں کانوں کے درمیان (یعنی سر پر) بڑی زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقے سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق اس چیخ پکار کو سنتی ہے۔‘‘ دوسرا موقع ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن قریش کے سرداروں میں سے چوبیس آدمیوں کے متعلق حکم دیا تو وہ بدر کے کنوؤں میں سے ایک خبیث گندگی والے کنویں میں پھینک دیے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم پر فتح پاتے تو میدان میں تین دن ٹھہرتے تھے۔ جب بدر میں تیسرا دن ہوا تو آپ نے اپنی اونٹنی کے متعلق حکم دیا تو اس پر اس کا پالان کسا گیا، پھر آپ چل پڑے اور آپ کے پیچھے آپ کے اصحاب بھی چل پڑے اور کہنے لگے، ہمارا خیال یہی ہے کہ آپ اپنے کسی کام کے لیے جا رہے ہیں، یہاں تک کہ آپ اس کنویں کے کنارے پر کھڑے ہو گئے اور انھیں ان کے اور ان کے باپوں کے نام لے لے کر پکارنے لگے: (( يَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ، وَ يَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ! أَيَسُرُّكُمْ أَنَّكُمْ أَطَعْتُمُ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهُ؟ فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا، فَهَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا؟ قَالَ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! مَا تُكَلِّمُ مِنْ أَجْسَادٍ لَا أَرْوَاحَ لَهَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُوْلُ مِنْهُمْ )) [ بخاري، المغازي، باب قتل أبي جھل : ۳۹۷۶ ] ’’اے فلاں بن فلاں! اور اے فلاں بن فلاں! کیا تمھیں پسند ہے کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی، کیونکہ ہم نے تو جو ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا اسے حق پایا، تو کیا تم نے بھی جو تمھارے رب نے وعدہ کیا تھا، حق پایا؟‘‘ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’یا رسول اللہ! آپ ان جسموں سے کیا بات کرتے ہیں جن میں روحیں نہیں ہیں۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے ! تم ان سے زیادہ وہ باتیں سننے والے نہیں جو میں انھیں کہہ رہا ہوں۔‘‘ 2۔ ہمارا ایمان ہے کہ ان دونوں موقعوں پر مردے وہ بات سنتے ہیں جس کا حدیث میں ذکر ہے، ان کے سوا مردے زندوں کی کوئی بات نہیں سنتے، مگر ان دو احادیث کو بنیاد بنا کر بعض لوگوں نے عقیدہ بنا لیا کہ تمام مُردے سنتے ہیں اور ہر بات ہر وقت سنتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ مردہ پرستی اور غیراللہ کو پکارنے اور ان سے فریاد کرنے کی بنیاد یہی عقیدہ ہے کہ مُردے سنتے ہیں، ورنہ اگر یقین ہو کہ وہ سنتے ہی نہیں تو پاگل ہی ہو گا جو انھیں پکارے گا۔ قرآن مجید میں مُردوں کے نہ سننے کا مضمون متعدد جگہ بیان ہوا ہے۔ دیکھیے سورۂ روم (۵۲) اور فاطر (۱۹تا۲۲) بلکہ مردوں کو خبر ہی نہیں کہ کوئی انھیں پکار رہا ہے۔ دیکھیے سورۂ نحل (۲۰، ۲۱)، فاطر (۱۳، ۱۴) اور احقاف (۴ تا۶) اور قیامت سے پہلے فوت شدہ لوگ واپس بھی نہیں آتے۔ دیکھیے سورۂ یٰس (۳۱) اور انبیاء (۹۵) عزیر علیہ السلام اور جن حضرات کا دنیا میں زندہ ہونا قرآن یا صحیح حدیث سے ثابت ہے، وہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ 3۔ قبر پرستوں کے برعکس کچھ لوگوں نے ان دو مواقع پر بھی مردوں کے سننے سے انکار کر دیا، پھر ان میں سے بعض نے تو صاف ان حدیثوں کا انکار کر دیا، حالانکہ یہ صحیح بخاری کی احادیث ہیں جن کی صحت پر امت کا اتفاق ہے اور بعض نے ان کی ایسی لغو تاویلیں کیں جو انکار سے بھی بدتر ہیں، حالانکہ حق افراط و تفریط کے درمیان ہے۔