وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ
اور بے شک تیرا رب یقیناً جانتا ہے جو ان کے سینے چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔
وَ اِنَّ رَبَّكَ لَيَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ ....: یعنی عذاب میں تاخیر کی یہ وجہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے اعمال کا علم نہیں، یقیناً تیرا رب وہ بھی جانتا ہے جو ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں اور وہ بھی جو وہ ظاہر کر رہے ہیں۔ لفظ ’’رب‘‘ میں تاخیر اور مہلت کا سبب بیان ہوا ہے اور اس بات میں کہ وہ ان کی سینوں میں چھپی ہوئی اور ان کی ظاہر ہونے والی ہر بات کو جانتا ہے، شدید وعید بھی ہے، جیسے کسی کو ڈانٹنا ہو تو کہا جاتا ہے کہ میں تمھاری حرکتیں دیکھ رہا ہوں۔ پوشیدہ باتوں کو جاننا تو صرف اللہ تعالیٰ کی شان ہے ہی، لوگوں کے ظاہر اعمال کو جاننا بھی صرف رب تعالیٰ ہی کی شان ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا ایک وقت میں اتنے لوگوں کی بات سن ہی نہیں سکتا، ان کے ہر عمل سے کیسے باخبر ہو سکے گا۔ مزید دیکھیے سورۂ رعد (۱۰)، ہود (۵) اور طٰہٰ (۷)۔