أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنبِتُوا شَجَرَهَا ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ
(کیا وہ شریک بہتر ہیں) یا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمھارے لیے آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ساتھ رونق والے باغات اگائے، تمھارے بس میں نہ تھا کہ ان کے درخت اگاتے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو راستے سے ہٹ رہے ہیں۔
1۔ اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ ....: ’’حَدَآىِٕقَ‘‘ ’’حَدِيْقَةٌ‘‘ کی جمع ہے، جو اصل میں وہ باغ ہے جس کے گرد دیوار ہو، پھر ہر باغ کو ’’حَدِيْقَةٌ‘‘ کہا جانے لگا۔ ’’ اَمَّنْ‘‘ کے ’’أَمْ‘‘سے پہلے ہمزہ استفہام والا ایک جملہ مقدر ہے، جو عبارت کے تسلسل سے سمجھ میں آرہا ہے : ’’أَيْ أَشُرَكَاءُ هُمْ خَيْرٌ أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ‘‘ ’’یعنی کیا ان کے شریک بہتر ہیں یا وہ اللہ جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا؟‘‘ یہاں اللہ تعالیٰ نے پانچ آیات میں اپنی وہ صفات ذکر فرمائیں جو مشرکین مکہ بھی مانتے تھے کہ وہ اللہ کے سوا کسی میں نہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ ہر آیت میں چند صفات بیان کر کے فرماتے ہیں کہ جب یہ صفات صرف اللہ کی ہیں تو پھر کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہو سکتا ہے؟ اس پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ صفات بیان فرمائیں کہ آسمانوں کا خالق وہ ہے اور زمین کا بھی، پھر آسمان سے بارش برسانے والا اور اس کے ساتھ زمین سے خوش ذائقہ اور خوش منظر باغات اگانے والا بھی وہی ہے۔ مشرکین یہ تینوں باتیں مانتے تھے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُ ﴾ [الزخرف : ۹ ] ’’اور بلاشبہ اگر تو ان سے پوچھے کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یقیناً ضرور کہیں گے کہ انھیں سب پر غالب، سب کچھ جاننے والے نے پیدا کیا ہے۔‘‘ آسمان و زمین ہی نہیں، خود ان کو پیدا کرنے والا بھی وہ اللہ ہی کو مانتے ہیں، فرمایا : ﴿ وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ ﴾ [ الزخرف : ۸۷ ] ’’اور یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ انھیں کس نے پیدا کیا تو بلاشبہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، پھر کہاں بہکائے جاتے ہیں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ﴾ [ العنکبوت : ۶۳ ] ’’اور یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ کس نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کر دیاتو ضرور ہی کہیں گے کہ اللہ نے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ تم مانتے ہو کہ یہ سب کچھ کرنے والا وہ اکیلا ہے، کائنات کے اس سارے نظام میں نہ کوئی فرشتہ شریک ہے، نہ کوئی نبی و ولی اور نہ کوئی اور معبود، پھر اس کے ساتھ ان کی عبادت کرتے ہو جن کے متعلق مانتے ہو کہ نہ پیدا کرتے ہیں، نہ رزق دیتے ہیں، تو بتاؤ کیا اللہ کے ساتھ کوئی معبود ہو سکتا ہے جو نہ پیدا کرے نہ روزی دے؟ اور فرمایا : ﴿اَفَمَنْ يَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ﴾ [ النحل : ۱۷ ] ”تو کیا وہ جو پیدا کرتا ہے، اس کی طرح ہے جو پیدا نہیں کرتا؟ پھر کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔‘‘ عرب کے مشرکین ہی نہیں، دنیا بھر کے مشرکین مانتے تھے اور آج بھی مانتے ہیں کہ کائنات کا خالق اور کائنات کے نظام کو چلانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، اس لیے قرآن مجید کے اس سوال کا کوئی ہٹ دھرم سے ہٹ دھرم شخص برائے بحث بھی یہ جواب نہیں دے سکتا تھا کہ ان کاموں میں ہمارے معبود شریک ہیں، اگر کوئی ایسا کہتا تو اس کی قوم کے ہزاروں آدمی اسے جھٹلا دیتے اور کہہ دیتے کہ تم غلط کہہ رہے ہو۔ 2۔ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَرَهَا: یہ اس خیال کی تردید ہے جو انسان کے ذہن میں آجاتا ہے کہ زمین کو ہم بناتے ہیں، بیج ہم ڈالتے ہیں، پانی ہم دیتے ہیں، غرض یہ باغ اور کھیتیاں اگانے والے ہم ہیں۔ فرمایا، تمھارے بس ہی میں نہ تھا کہ تم ان باغات کے درخت اگاتے، یہ ہم ہیں جنھوں نے رونق اور خوبی والے یہ باغ اگائے ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ (63) ءَاَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَهٗ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ (64) لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنٰهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُوْنَ (65) اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَ (66) بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ ﴾ [ الواقعۃ : ۶۳ تا ۶۷ ] ’’پھر کیا تم نے دیکھا جو کچھ تم بوتے ہو ؟ کیا تم اسے اگاتے ہو، یا ہم ہی اگانے والے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو ضرور اسے ریزہ ریزہ کر دیں، پھر تم تعجب سے باتیں بناتے رہ جاؤ۔ کہ بے شک ہم تو تاوان ڈال دیے گئے ہیں۔ بلکہ ہم بے نصیب ہیں۔‘‘ 3۔ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ: نہیں، اللہ کی قسم! نہیں۔ 4۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ: ’’يَعْدِلُوْنَ‘‘ ’’عُدُوْلٌ‘‘ سے ہے، جس کا معنی ہٹنا ہے، بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو راستے سے ہٹ رہے ہیں۔ یا ’’عَدْلٌ‘‘سے ہے، جس کا معنی برابر کرنا ہے، بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو (دوسروں کو) اللہ کے برابر ٹھہراتے ہیں۔ پہلے جنھیں مخاطب کیا گیا تھا، یعنی: ﴿ وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً....﴾ (اور تمھارے لیے آسمان سے پانی اتارا....) اب انھیں غائب کے صیغے کے ساتھ ذکر فرمایا:﴿ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ﴾ (بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو راستے سے ہٹ رہے ہیں) اس سے ناراضی کا اظہار ہو رہا ہے کہ یہ لوگ خطاب کے قابل نہیں۔