قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
کہہ دے اے اللہ! بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے اور جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کردیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے، بے شک تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
1۔ قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ:سیبویہ اور خلیل نے کہا ”اللّٰهُمَّ“ اصل میں ”يَااللّٰهُ“ تھا، شروع سے ’’یا‘‘ کو حذف کیا تو آخر میں میم مشدد لگا دی۔ ”مٰلِكَ الْمُلْكِ“ سے پہلے بھی ’’یا‘‘ پوشیدہ ہے، اس لیے لفظ ”مٰلِكَ“ منصوب ہے۔ ( شوکانی) گویا اس دعا میں اللہ کے ذاتی اور صفاتی دونوں ناموں سے دعا کرنا سکھایا گیا ہے۔ 2۔ یہودی غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ حُکم و نبوت کا یہ سلسلہ ہمیشہ ان میں رہے گا، دوسری قوم اس کا حق نہیں رکھتی، مگر جب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم ایک اُمی قوم بنی اسماعیل سے مبعوث ہو گئے تو ان کے غیظ و غضب اور حسد کی انتہا نہ رہی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی والا اور ساری بادشاہی کا مالک ہے۔ وہ جس قوم کو چاہتا ہے دنیا میں عزت و سلطنت سے نواز دیتا ہے۔ لہٰذا نبوت جو بہت بڑی عزت ہے، اس کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے جسے چاہا پسند فرما لیا۔ اللہ تعالیٰ پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔ یہاں دعا کے انداز میں مسلمانوں کو بشارت بھی دے دی کہ تمہیں اس دنیا میں غلبہ و اقتدار حاصل ہو گا اور خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے، لہٰذا تمہیں چاہیے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاؤ۔ 3۔ ”الْخَيْرُ“ میں الف لام استغراق کا ہے اور ”بِيَدِكَ“ خبر پہلے آنے سے تخصیص پیدا ہو گئی ہے، اس لیے ترجمہ ’’تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے ‘‘کیا گیا ہے۔