أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ
تاکہ وہ اللہ کو سجدہ نہ کریں جو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو نکالتا ہے اور جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو۔
1۔ اَلَّا يَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ يُخْرِجُ الْخَبْءَ ....: ’’ الْخَبْءَ ‘‘ مصدر بمعنی اسم مفعول ’’اَلْمَخْبُوْئُ ‘‘ ہے، چھپی ہوئی چیز، یعنی یہ لوگ اس اللہ کو سجدہ کیوں نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین میں چھپی ہوئی چیز نکالتا ہے۔ اس آیت کا دوسرا ترجمہ وہی ہے جو اوپر کیا گیا ہے کہ تاکہ وہ اللہ کو سجدہ نہ کریں جو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو نکالتا ہے۔ ہُد ہُد نے اس بنیادی حقیقت کے ثبوت کے لیے تین عظیم الشان دلیلیں پیش کیں کہ معبود برحق صرف اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے، اس کے سوا کسی کو سجدہ جائز نہیں۔ پہلی یہ کہ وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کی مخفی اور پوشیدہ چیزوں کو نکالتا ہے۔ آسمانوں کی پوشیدہ چیزوں کے عمو م میں سورج، چاند، ستارے، سیارے، بارش، ہوا اور بجلی وغیرہ سب ہی داخل ہیں اور زمین کی پوشیدہ چیزوں میں تمام نباتات، پودے، درخت، دریا، چشمے، زیر زمین پانی، تیل، گیس اور بے شمار معدنیات سب آ جاتے ہیں۔ بعض اہلِ علم نے فرمایا کہ ہد ہد کی خوراک عام طور پر وہ کیڑے ہوتے ہیں جو درختوں کی چھال یا زمین کے نیچے چھپے ہوتے ہیں۔ اس بظاہر معمولی سے پرندے نے اللہ تعالیٰ کی توحید کی دلیل اپنی سمجھ اور تجربے کے مطابق دی کہ عبادت اور سجدے کے لائق وہ اللہ ہے جو ہر مخلوق کو اس کی چھپی ہوئی روزی تک رسائی دیتا ہے۔ سورج جسے اپنی گردش ہی سے فرصت نہیں، نہ اس نے کوئی چیز پیدا کی کہ وہ اسے چھپانے یا ظاہر کرنے کا علم یا اختیار رکھتا ہو، وہ عبادت یا سجدے کے لائق کیسے ہو گیا؟ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ہد ہد کی روزی ہے ریت سے کیڑے نکال نکال کر کھانا، نہ دانہ کھائے نہ میوہ، اس کو اللہ کی اسی قدرت سے کام ہے۔‘‘ 2۔ وَ يَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ: یہ اکیلے اللہ کو سجدہ کرنے کی دوسری دلیل ہے، یعنی سجدے کے لائق وہ ذات ہے جس کا علم اتنا وسیع ہے کہ نہ صرف آسمان و زمین ہی کی پوشیدہ قوتوں اور چیزوں کو جانتا ہے بلکہ وہ سب کچھ بھی جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو یا پوشیدہ رکھتے ہو۔ سورج یا کسی اور مخلوق کو کسی کے ظاہر یا پوشیدہ حالات کی کیا خبر کہ وہ سجدے کے لائق ہو۔