إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ
بے شک میں نے ایک عورت کو پایا کہ ان پر حکومت کر رہی ہے اور اسے ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا ہے اور اس کا ایک بڑا تخت ہے۔
1۔ اِنِّيْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِكُهُمْ: ہُد ہُد کے لیے یہ بات بڑے تعجب کی تھی کہ کسی قوم کی بادشاہ ایک عورت ہو۔ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچی کہ اہلِ فارس نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا بادشاہ بنا لیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَنْ يُّفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمُ امْرَأَةً )) [ بخاري، المغازي، باب کتاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلٰی کسرٰی و قیصر : ۴۴۲۵، ۷۰۹۹ ] ’’وہ قوم کبھی فلاح نہیں پائے گی جنھوں نے اپنے معاملے کا والی ایک عورت کو بنا دیا۔‘‘ 2۔ وَ اُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ: یعنی اسے سلطنت کے لیے درکار ہر چیز دی گئی ہے۔ ’’ كُلِّ ‘‘ کا مفہوم ہر مقام کی مناسبت سے متعین ہوتا ہے، ورنہ اسے ہر چیز تو نہیں دی گئی تھی۔ 3۔ اس عورت کا نام مفسرین نے بلقیس بیان کیا ہے، بعض نے لکھا ہے کہ اس کی ماں جنوں سے تھی، مگر یہ بات قرآن یا حدیث سے ثابت نہیں، اگر ضرورت ہوتی تو قرآن میں اس کا نام ضرور بیان ہوتا اور انسانوں اور جنوں کی اس رشتہ داری کا ذکر بھی ہوتا۔ یقیناً اس کا نام و نسب ذکر نہ کرنے ہی میں حکمت ہے۔ اس لیے آپ اسے بلقیس کے بجائے ملکہ سبا کہہ سکتے ہیں۔ 4۔ اسرائیلیات میں کس قدر مبالغہ ہوتا ہے، خواہ بیان کرنے والے کتنے ثقہ اور کس پائے کے ہوں، اس کا اندازہ مفسرین کے ان بیانات سے ہوتا ہے جن میں انھوں نے ملکہ سبا کی افواج کی تعداد بیان کی ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں سے اس کے متعلق تین اقوال ملاحظہ فرمائیں : (1) ابن ابی حاتم نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے بیان کیا ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے معاملے والی خاتون کے ساتھ ایک ہزار سردار تھے اور ہر سردار کے تحت ایک لاکھ جنگجو تھے (کل تعداد دس کروڑ ہوئی)۔ (2) مجاہد نے کہا، ملکہ سبا کے تحت بارہ ہزار سردار تھے اور ہر سردار کے تحت ایک لاکھ جنگجو تھے (کل تعداد ایک ارب بیس کروڑ)۔ (3) قتادہ نے کہا، اس کے مشیر تین سو بارہ آدمی تھے، ہر آدمی دس ہزار پر امیر تھا (کل تعداد اکتیس لاکھ بیس ہزار)۔ ابن کثیر نے فرمایا : ’’یہ قول زیادہ قریب ہے، اگرچہ ملک یمن کے لحاظ سے یہ بھی بہت زیادہ ہے۔‘‘ یہ روایات اگرچہ ابن عباس رضی اللہ عنھما ، مجاہد اور قتادہ سے آئی ہیں، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی نہیں۔ ان کا اسرائیلی ہونا ظاہر ہے اور ابن کثیر نے دو لفظوں میں ان کا ساقط الاعتبار ہونا بیان فرما دیا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اتنی فوج تو بہت دور کی بات ہے، آیا اس وقت ملک یمن یا شاید پوری دنیا کی آبادی بھی ایک ارب بیس کروڑ تھی؟ اس سے پہلے سلیمان علیہ السلام کے لشکروں کی تعداد بھی مفسرین نے اسی انداز سے بیان کی ہے اور کئی مفسرین نے ناقابل اعتبار کہہ کر اسے نقل نہیں کیا۔ بہرحال ’’ وَ اُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ‘‘ سے یہ ظاہر ہے کہ ملکہ عظیم الشان سلطنت کی مالک تھی اور اسے مال و دولت، افواج اور اسلحہ وغیرہ کی تمام چیزیں میسر تھیں، جو حکومت کے لیے درکار ہوتی ہیں۔ 5۔ وَ لَهَا عَرْشٌ عَظِيْمٌ: ہُد ہُد نے اس کے تخت کا خاص طور پر ذکر کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تخت میں کوئی ایسی خوبی تھی کہ سلیمان علیہ السلام جیسے شان و شوکت والے بادشاہ کے ساتھ رہنے والے ہد ہد نے بھی اسے عظیم قرار دیا۔ یہاں بھی بعض مفسرین نے ایسی اسرائیلی روایات ذکر کی ہیں جو پہلی ہی نظر میں فضول دکھائی دیتی ہیں، مثلاً یہ کہ وہ اسی (۸۰) ہاتھ (۱۲۰ فٹ) لمبا اور چالیس (۴۰) ہاتھ (۶۰ فٹ) چوڑا تھا۔ بھلا ایک عورت کو بیٹھنے کے لیے اتنے لمبے چوڑے تخت کی کیا ضرورت تھی۔ طبری نے یہاں بہت خوب صورت بات فرمائی ہے کہ عظیم سے مراد یہاں قدر و قیمت میں عظیم ہونا ہے، نہ کہ لمبا چوڑا ہونے میں عظیم ہونا۔