وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ
اور اس نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا مجھے کیا ہے کہ میں فلاں ہدہد کو نہیں دیکھ رہا، یا وہ غائب ہونے والوں سے ہے۔
1۔ وَ تَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا اَرَى ....: اس سے سلیمان علیہ السلام کے کمال احتیاط، نظم و ترتیب اور بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے معاملے کی ذاتی طور پر نگرانی کا پتا چلتا ہے، حتیٰ کہ پرندوں میں سے ایک پرندے ہُد ہُد اور ہُد ہُد میں سے ایک خاص ہُد ہُد کی عدم موجودگی بھی ان سے مخفی نہ رہ سکی۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم بھی چھوٹے سے چھوٹے معاملے کی بہ نفس نفیس خبر رکھتے تھے۔ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حالات، خصوصاً ان کا شام کا سفر اس کی بہترین مثال ہے۔ 2۔ فَقَالَ مَا لِيَ لَا اَرَى الْهُدْهُدَ: یعنی معاملہ کیا ہے، آیا ہُد ہُد یہاں موجود ہے اور مجھے نظر نہیں آ رہا، یا وہ ان میں سے ہے جو غائب ہیں؟ معلوم ہوا جائزے میں اور بھی کئی لوگ غائب تھے، مگر ان کے متعلق باز پرس کا یہاں ذکر نہیں کیا گیا۔ ممکن ہے وہ اجازت سے غائب ہوں، یا ان کے تذکرے کی ضرورت نہ ہو۔ اس واقعہ سے انبیاء علیھم السلام کے عالم الغیب ہونے کی نفی ہوتی ہے، کیونکہ اگر سلیمان علیہ السلام کو ہُد ہُد کے متعلق علم ہوتا تو یہ بات نہ کہتے۔ 3۔ اکثر مفسرین لکھتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام نے ہُد ہُد کو اس لیے طلب کیا تھا کہ وہ زمین کے نیچے پانی دیکھ لیتا تھا، مگر یہ بات بے دلیل ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ بتا دیتا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ذکر فرما دیتے۔ آیت کے الفاظ بھی اس مفہوم کے خلاف ہیں، کیونکہ اس میں ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے تمام پرندوں کا جائزہ لیا تو ایک خاص ہُد ہُد (الْهُدْهُدَ) کو غائب پایا۔ اس میں پانی کی ضرورت کے لیے ہُد ہُد کو طلب کرنے کا کوئی ذکر نہیں۔ ہُد ہُد کے متعلق سوال کی وجہ لشکر کا جائزہ تھا اور لشکر کا جائزہ مجاہدین کی معمول کی بات ہے۔ علاوہ ازیں پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے سلیمان علیہ السلام کو ہُد ہُد کی کوئی محتاجی نہ تھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں جنّوں اور عفریتوں کی وہ فوج عطا کر رکھی تھی جسے کسی بھی جگہ سے پانی لانا کچھ مشکل نہ تھا (جیسا کہ آنکھ جھپکنے میں ملکہ سبا کا تخت آ جانا، اس کی واضح مثال ہے)۔ کوئی قدیم مفسر اس قسم کی کوئی بے سروپا اسرائیلی روایت نقل کر دیتا ہے تو بعد والے مفسرین اسے اندھا دھند نقل کرتے جاتے ہیں، یہ سوچتے ہی نہیں کہ اس کا کوئی ثبوت بھی ہے یا نہیں، حتیٰ کہ ایسی بہت سی بے سروپا باتوں کو متفق علیہ حقیقت سمجھ لیا جاتا ہے۔ (تفسیر السعدی)