حَتَّىٰ إِذَا أَتَوْا عَلَىٰ وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی پر آئے تو ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیو! اپنے گھروں میں داخل ہوجاؤ، کہیں سلیمان اور اس کے لشکر تمھیں کچل نہ دیں اور وہ شعور نہ رکھتے ہوں۔
حَتّٰى اِذَا اَتَوْا عَلٰى وَادِ النَّمْلِ....: اس آیت سے بہت سے مسائل معلوم ہوتے ہیں : (1) چیونٹیوں کو اللہ تعالیٰ نے اجتماعیت کا شعور بخشا ہے، چنانچہ وہ بستیوں کی صورت میں رہتی ہیں۔ ان کی باقاعدہ ایک ملکہ ہوتی ہے، جس کے احکام کے تحت وہ زندگی بسر کرتی ہیں۔ ان کی بستیوں کے اندر حیرت انگیز ترتیب کے ساتھ مکانات، ان کی دہلیزیں، چھتیں، راستے، غرض سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ آنے والے وقت کے لیے غذا جمع کرتی ہیں اور اسے ایسے طریقے سے محفوظ کرتی ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے، چنانچہ وہ غلے کے ہر دانے کو کاٹ کر دو حصوں میں کر دیتی ہیں، تاکہ وہ نمی سے اُگ نہ جائے۔ ان میں پہرے دار، لڑاکا دستے، خوراک جمع کرنے والے اور صفائی کرنے والے، غرض ہر طرح کے مجموعے ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ یہ وادی جس پر سے سلیمان علیہ السلام گزرنے والے تھے ایسی ہی وادی تھی جس میں چیونٹیوں کی بستیاں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا محل وقوع بیان نہیں فرمایا، نہ ہدایت کے مقصد کے لیے اس کی ضرورت تھی۔ مفسرین میں سے کوئی وہ وادی شام میں بیان کرتا ہے، کوئی طائف میں۔ اصل مقام کوئی بھی نہیں جانتا۔ (2) سلیمان علیہ السلام کے اس وادی کے قریب آنے پر ایک چیونٹی نے کہا : ’’اے چیونٹیو! اپنے گھروں میں داخل ہو جاؤ۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اس بظاہر حقیر سی مخلوق کا ایک فرد اپنی ساری قوم کے لیے فکر مند ہے اور انھیں بچنے کی تدبیر سے آگاہ کر رہا ہے۔ یہ زندہ قوموں کی علامت ہے۔ جب کسی قوم کے افراد صرف اپنی فکر میں پڑ جائیں تو اس قوم کو ذلت اور بربادی سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی، جیسا کہ اس وقت امتِ مسلمہ کے اکثر افراد کا حال ہو چکا ہے۔(3) سلیمان علیہ السلام کا عالم الغیب نہ ہونا چیونٹیوں کو بھی معلوم تھا، چنانچہ اس چیونٹی نے کہا، کہیں سلیمان اور اس کے لشکر تمھیں کچل نہ دیں، جب کہ وہ شعور نہ رکھتے ہوں۔ (4) اس میں سلیمان علیہ السلام اور ان کے لشکروں کی تعریف بھی ہے کہ وہ جانتے بوجھتے ہوئے کبھی زیادتی نہیں کرتے، لاعلمی میں کوئی ان کی یلغار میں کچلا جائے تو الگ بات ہے۔ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی شان تھی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ لَوْ لَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَ نِسَآءٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْهُمْ اَنْ تَطَـُٔوْهُمْ فَتُصِيْبَكُمْ مِّنْهُمْ مَّعَرَّةٌۢ بِغَيْرِ عِلْمٍ ﴾ [ الفتح : ۲۵ ] ’’اور اگر کچھ مومن مرد اور مومن عورتیں نہ ہوتیں، جنھیں تم نہیں جانتے تھے (اگر یہ نہ ہوتا) کہ تم انھیں روند ڈالو گے تو تم پر لا علمی میں ان کی وجہ سے عیب لگ جائے گا (تو ان پر حملہ کر دیا جاتا)۔‘‘ (5) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عام راستے پر چلنے والوں کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ چیونٹیوں وغیرہ کو بچائیں، یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اپنا بچاؤ خود کریں۔ (6) یہ بھی معلوم ہوا کہ سلیمان علیہ السلام پرندوں کے علاوہ دوسرے جانوروں کی بولی بھی سمجھتے تھے، یہ ان کا معجزہ تھا۔ (7) چیونٹی کی آواز آدمی کو سنائی نہیں دیتی، سلیمان علیہ السلام نے سن لی، یہ چیونٹی کی بولی سمجھنے کے علاوہ مزید معجزہ ہے۔ (8) معجزات کے بعض منکروں نے لکھا ہے کہ ’’وادی النمل‘‘ بنو نمل قبیلے کا مسکن تھی اور یہ نملہ چیونٹی نہیں تھی بلکہ اس قبیلے کا ایک آدمی تھا۔ مگر یہ قرآن کی بدترین تحریف ہے، کیونکہ چیونٹی کے قول ’’ وَ هُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ‘‘ سے صاف ظاہر ہے کہ وہ عام چیونٹیاں تھیں جو زمین پر رینگتی پھرتی ہیں، کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی لشکر انسانوں سے بھری ہوئی وادی کو کچلتا ہوا گزر جائے اور اسے پتا ہی نہ چلے۔ علاوہ ازیں اس صورت میں آیت کا اس علم سے کوئی تعلق نہیں رہتا جس کے عطا ہونے پر سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے شکر نعمت کی توفیق مانگ رہے ہیں۔ نہ تاریخ میں بنو نمل نامی قبیلے کا کوئی وجود پایا جاتا ہے، نہ عربی زبان میں۔ بنو کلب قبیلے کے آدمی کو کلب یا بنو اسد قبیلے کے آدمی کو اسد کہا جاتا ہے کہ بنو نمل قبیلے کے آدمی کو نملہ کہا جائے !! معجزات کے منکروں کی مشکل یہ ہے کہ وہ قرآن کا صاف انکار کرنے کی جرأت نہیں رکھتے، اس لیے اس کے معانی میں تحریف کرتے رہتے ہیں۔