وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ
اور انھوں نے ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان کا انکار کردیا، حالانکہ ان کے دل ان کا اچھی طرح یقین کرچکے تھے، پس دیکھ فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا۔
1۔ وَ جَحَدُوْا بِهَا وَ اسْتَيْقَنَتْهَا اَنْفُسُهُمْ....: ’’ أَيْقَنَ يُوْقِنُ‘‘ کا معنی بھی یقین کرنا ہے، ’’اِسْتَيْقَنَ‘‘ میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے معنی کیا گیا ہے ’’اچھی طرح یقین کر لیا۔‘‘ جحود یہ ہے کہ دل سے ایک بات کو درست سمجھتے ہوئے زبان سے اس کا انکار کر دے، یعنی فرعون اور اس کی قوم نے ان معجزوں کے سچا ہونے کے یقین کے باوجود ان کا انکار کر دیا۔ یہی بات موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہی تھی : ﴿ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا اَنْزَلَ هٰؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ﴾ [ بني إسرائیل : ۱۰۲ ] ’’بلاشبہ یقیناً تو جان چکا ہے کہ انھیں آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نہیں اتارا۔‘‘ 2۔ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا: یعنی پوری طرح یقین کے باوجود ان کے انکار کی دو وجہیں تھیں، ایک ظلم، دوسرا علو۔ ظلم یہ کہ انھوں نے موسیٰ علیہ السلام کو رسول ماننے کے بجائے جھوٹا کہہ دیا، بلکہ جادوگر قرار دے دیا اور علو کا بیان ان آیات میں ہے : ﴿ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى وَ اَخَاهُ هٰرُوْنَ بِاٰيٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ (45) اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىِٕهٖ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا عَالِيْنَ (46) فَقَالُوْا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَ قَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ ﴾ [ المؤمنون : ۴۵ تا ۴۷ ] ’’پھر ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کو اپنی آیات اور واضح دلیل دے کربھیجا۔ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف تو انھوں نے تکبر کیا اور وہ سرکش لوگ تھے۔ تو انھوں نے کہا کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں، حالانکہ ان کے لوگ ہمارے غلام ہیں۔‘‘ 3۔ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی اور آپ کو جھٹلانے والوں کے لیے وعید ہے۔ ’’ فَانْظُرْ ‘‘ (پس دیکھ) کا مخاطب ہر شخص بھی ہو سکتا ہے۔