طس ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْآنِ وَكِتَابٍ مُّبِينٍ
طٰسۤ، یہ قرآن اور واضح کتاب کی آیات ہیں۔
طٰسٓ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَ كِتَابٍ مُّبِيْنٍ: یہاں قرآن کا ذکر پہلے ہے جب کہ سورۂ حجر میں اس کے برعکس کتاب کا ذکر پہلے ہے، وہاں فرمایا : ﴿ الٓرٰ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ وَ قُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ ﴾ [الحجر:۱] ’’ الٓرٰ ۔ یہ کامل کتاب اور واضح قرآن کی آیات ہیں۔‘‘ یہ فرق کیوں ہے؟ ابو حیان اور زمخشری کے مطابق یہ فرق ظاہر نہیں ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ بعض معطوف علیہ اور معطوف ایسے ہوتے ہیں جن میں سے کسی کو پہلے ذکر کرنے کی کوئی وجہ ترجیح نہیں ہوتی، جسے چاہو پہلے ذکر کر دو اور جسے چاہو بعد میں، جیسا کہ ’’ وَ قُوْلُوْا حِطَّةٌ ‘‘ اور ’’ وَ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا ‘‘ میں ہے۔ قرآن اور کتاب کے عطف کا معاملہ بھی یہی ہے، جبکہ بعض ایسے ہوتے ہیں جن میں معطوف علیہ کو پہلے لانے کی وجہ ظاہر ہوتی ہے، جیسے:﴿ شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ ﴾ [ آل عمران : ۱۸] ’’اللہ نے گواہی دی کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، اس حال میں کہ وہ انصاف پر قائم ہے۔‘‘ ابن عاشور نے ایک وجہ ترجیح بیان کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ سورۂ حجر میں اس آیت کے بعد کفار کے قیامت کے دن حسرت و افسوس کا ذکر ہے، جب کہ یہاں اس کے بعد ایمان والوں کے لیے اس کے ہدایت اور بشارت ہونے کا ذکر ہے۔ کفار کو چونکہ قرآن پڑھنے سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے وہاں کتاب کا ذکر پہلے فرمایا، کیونکہ کتاب تو ہر حال میں ان پر حجت ہے۔ مومنین کا تعلق قرآن لکھنے سے زیادہ پڑھنے کے ساتھ ہے، اس لیے یہاں قرآن کا ذکر پہلے فرمایا۔ (التحریر والتنویر)