أَفَرَأَيْتَ إِن مَّتَّعْنَاهُمْ سِنِينَ
پس کیا تو نے دیکھا اگر ہم انھیں کئی سال فائدہ دیں۔
1۔ اَفَرَءَيْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِنِيْنَ....: ان کا عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرنے سے ظاہر ہے کہ وہ اس کے آنے پر ایمان نہیں رکھتے اور بہت دیر تک زندہ رہنے کی امید رکھتے ہیں، اسی لیے وہ اسے جلدی طلب کرتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ فرمایا، یہ بتاؤ کہ اگر ہم ان کی توقع کے مطابق کچھ سال انھیں زندہ رہنے اور فائدہ اٹھانے کا موقع دے دیں، پھر ان پر عذاب آئے یا موت ہی آ جائے جس کے بعد عذاب ہی عذاب ہے، تو جتنے سال انھیں زندہ رہنے کا اور زندگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جاتا رہا وہ عذاب سے بچانے میں ان کے کس کام آئے گا؟ (دیکھیے بقرہ : ۹۶) وہ گزرا ہوا سارا عرصہ تو ایک ساعت سے زیادہ معلوم نہیں ہو گا۔ (دیکھیے روم : ۵۵) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق دنیا کے سب سے خوش حال کافر کو جہنم کا ایک غوطہ دلانے کے بعد پوچھا جائے گا کہ تو نے کبھی خیر دیکھی ہے تو وہ قسم اٹھا کر کہے گا کہ نہیں۔ [ دیکھیے مسلم، صفات المنافقین، باب صبغ أنعم أھل الدنیا في النار : ۲۸۰۷، عن أنس رضی اللّٰہ عنہ ] تفسیر کبیر میں ہے کہ میمون بن مہران طواف میں حسن بصری سے ملے اور نصیحت کی درخواست کی تو انھوں نے صرف اس آیت کی تلاوت کر دی، تو میمون نے کہا، آپ نے نصیحت کی اور کمال کی نصیحت کی۔ 2۔ ’’ سِنِيْنَ ‘‘ جمع مذکر سالم نکرہ قلت کے لیے استعمال ہوا ہے، یعنی جتنی لمبی زندگی بھی مل جائے وہ چند سال ہی ہیں، کیونکہ گزر جانے والی چیز قلیل ہی ہوتی ہے۔