وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ
اور بے شک یہ یقیناً رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے۔
1۔ وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : شروع سورت میں تمہیداً قرآن کے ذکر سے مقصود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی رسالت و نبوت کو ثابت کرنا تھا، پھر جھٹلانے والوں کو دھمکی دی اور اس سلسلہ میں انبیاء کے سات قصے بیان فرمائے، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی ہو اور آپ کو جھٹلانے والے عبرت حاصل کریں۔ اب یہاں سے پھر رسالت کا اثبات شروع کیا اور آپ کی نبوت کے حق ہونے کے دلائل اور کفار کے شبہات کے جواب آخر سورت تک چلے گئے ہیں۔ (کبیر، قرطبی) 2۔ ’’ تَنْزِيْلٌ‘‘ مصدر ہے جو اسم مفعول کے معنی میں ہے، نازل کیا ہوا۔ کفار قرآن کے وحی الٰہی ہونے کا انکار کرتے تھے، اس لیے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے بھی منکر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کا آغاز یہ کہہ کر فرمایا کہ یہ کتاب مبین کی آیات ہیں، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینے کے لیے اور کفار کو کفر کے انجام بد سے ڈرانے کے لیے انبیائے کرام علیھم السلام کے سات قصّے بیان فرمائے، جو اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ یہ قرآن یقیناً وحی الٰہی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ رسول، جو نہ پڑھ سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے، گزشتہ انبیاء اور قوموں کے واقعات کیسے بیان کر سکتا تھا۔ بلاغت کا قاعدہ ہے کہ انکار جتنا شدید ہو بات اتنی ہی تاکید سے کی جاتی ہے۔ اس لیے نہایت تاکید کے ساتھ فرمایا کہ بے شک یہ یقیناً رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے، نہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے خود تصنیف کیا ہے، نہ کسی اور انسان یا جن کا گھڑا ہوا ہے۔