سورة الشعراء - آیت 166

وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور انھیں چھوڑ دیتے ہو جو تمھارے رب نے تمھارے لیے تمھاری بیویاں پیدا کی ہیں، بلکہ تم حد سے گزرنے والے لوگ ہو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ تَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ ....: اس آیت کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے جو بیویاں اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے پیدا کی ہیں انھیں چھوڑ کر مردوں کے پاس جاتے ہو۔ اس صورت میں ’’ مَا ‘‘ بیانیہ ہے، ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ تمھاری بیویوں میں سے جو کچھ تمھارے رب نے تمھارے لیے پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو؟ یعنی قُبل کے بجائے غیر فطری وضع سے شہوت پوری کرتے ہو۔ اس صورت میں ’’ مَا ‘‘ تبعیض کے لیے ہے۔ بعید نہیں کہ وہ لوگ یہ حرکت اولاد سے بچنے کے لیے کرتے ہوں۔ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ : یعنی صرف اسی کام میں نہیں بلکہ ہر کام میں حد سے گزرنا تمھاری عادت بن چکی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿اَئِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَ تَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ وَ تَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ ﴾ [ العنکبوت : ۲۹ ] ’’کیا بے شک تم واقعی مردوں کے پاس آتے ہو اور راستہ کاٹتے ہو اور اپنی مجلس میں برا کام کرتے ہو؟‘‘ ہمارے عہد میں یورپی لوگ فطرت کی مخالفت میں اس قدر حد سے گزر گئے ہیں کہ انھوں نے قانوناً قوم لوط کے عمل کو جائز قرار دے دیا ہے اور مردوں کا مردوں کے ساتھ نکاح کرنے لگے ہیں۔ اگرچہ نئی سے نئی بیماریوں کی صورت میں اللہ کے عذاب کا کوڑا ان پر برس رہا ہے، تاہم بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر ایسا عذاب بھیجے جو دنیا کے لیے باعثِ عبرت ہو۔