أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ
کیا تم ہر اونچی جگہ پر ایک یادگار بناتے ہو؟ اس حال میں کہ لاحاصل کام کرتے ہو۔
اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْعٍ اٰيَةً تَعْبَثُوْنَ : ’’رِيْعٍ‘‘ اونچی جگہ۔ قاموس میں ہے ’’رِيْعٌ‘‘ (کسرہ اور فتحہ کے ساتھ) اونچی زمین یا ہر کشادہ راستہ یا ہر راستہ یا پہاڑ میں کھلا راستہ یا بلند پہاڑ۔ واحد کے لیے تاء کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ ’’ اٰيَةً ‘‘ نشانی، یادگار۔ ’’ تَعْبَثُوْنَ ‘‘ ’’عَبَثٌ‘‘ (ع) بے فائدہ اور لاحاصل کام کرنا، یعنی تم بے فائدہ اور لاحاصل کام کرتے ہو۔ ’’كُلُّ رِيْعٍ‘‘ سے مراد بہت سی اونچی جگہیں ہیں، کیونکہ ہر اونچی جگہ تو یاد گار نہ بن سکتی ہے اور نہ انھوں نے بنائی تھی۔ ہود علیہ السلام نے پہلے اپنی قوم کو تمام انبیاء کی لائی ہوئی بنیادی تعلیم اللہ پر ایمان، اس کے تقویٰ اور اطاعت کی دعوت دی، اس کے بعد ان کے چند کاموں پر انکار کا اظہار فرمایا۔ پہلا یہ کہ تم ہر اونچی اور نمایاں جگہ، جہاں تمھارے فخر و غرور، تمھاری شان و شوکت اور دولت و قوت کا اظہار ہو سکتا ہے کوئی نہ کوئی یاد گار بنا دیتے ہو، جس کا دنیا یا آخرت میں کوئی فائدہ نہیں۔ ہود علیہ السلام کا مقصد نمود و نمائش کے اس رجحان سے ہٹانا ہے، جس کی وجہ سے ایسے عبث کام کیے جاتے ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ ہم کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں۔ بے دریغ مال خرچ کرتے ہوئے کوئی اپنی یاد گار کے طور پر شاندار مقبرہ تعمیر کرا دیتا ہے، کوئی بلند و بالا مینار کھڑا کر دیتا ہے، کوئی بارہ دری بنوا دیتا ہے۔ عجائب عالم میں شمار ہونے والے اہرامِ مصر اور تاج محل بھی اپنے بانیوں کی ایسی ہی لاحاصل اور عبث یاد گاریں ہیں، جن کی جواب دہی انھیں کرنا ہو گی۔ ان یادگاروں کی مذمت اس لیے فرمائی کہ یہ فخر و غرور، فضول خرچی اور عمر عزیز کو ضائع کرنے پر دلالت کرتی ہیں، جن کا باعث یہ ہے کہ ان کے بنانے والوں کو جواب دہی کا احساس نہیں۔