سورة الشعراء - آیت 87

وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور مجھے رسوا نہ کر، جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَا تُخْزِنِيْ يَوْمَ يُبْعَثُوْنَ : یعنی قیامت کے دن تمام مخلوق کے سامنے میرا مؤاخذہ کرکے، یا میرے والد کو عذاب دے کر مجھے رسوا نہ کرکہ لوگ اسے جہنم میں جلتا ہوا دیکھ کر کہیں یہ ابراہیم کا باپ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا بھی قبول فرمائی، چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَلْقٰی إِبْرَاهِيْمُ أَبَاهُ آزَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ عَلٰی وَجْهِ آزَرَ قَتَرَةٌ وَغَبَرَةٌ فَيَقُوْلُ لَهُ إِبْرَاهِيْمُ أَلَمْ أَقُلْ لَّكَ لَا تَعْصِنِيْ؟ فَيَقُوْلُ أَبُوْهُ فَالْيَوْمَ لَا أَعْصِيْكَ، فَيَقُوْلُ إِبْرَاهِيْمُ يَا رَبِّ! إِنَّكَ وَعَدْتَنِيْ أَنْ لَّا تُخْزِيَنِيْ يَوْمَ يُبْعَثُوْنَ، فَأَيُّ خِزْيٍ أَخْزٰی مِنْ أَبِي الْأَبْعَدِ؟ فَيَقُوْلُ اللّٰهُ تَعَالٰی إِنِّيْ حَرَّمْتُ الْجَنَّةَ عَلَی الْكَافِرِيْنَ، ثُمَّ يُقَالُ يَا إِبْرَاهِيْمُ! مَا تَحْتَ رِجْلَيْكَ؟ فَيَنْظُرُ فَإِذَا هُوَ بِذِيْخٍ مُلْتَطِخٍ فَيُؤْخَذُ بِقَوَائِمِهِ فَيُلْقٰی فِي النَّارِ )) [بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالٰی : ﴿ واتخذ اللّٰہ إبراہیم خلیلا ﴾ : ۳۳۵۰ ] ’’قیامت کے دن ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ کو اس حال میں ملیں گے کہ اس کے چہرے پر سیاہی اور غبار ہو گا۔ ابراہیم علیہ السلام اس سے کہیں گے : ’’میں نے تجھے کہا نہ تھا کہ میری نافرمانی مت کر۔‘‘ ان کا باپ کہے گا : ’’تو آج میں تیری نافرمانی نہیں کروں گا۔‘‘ ابراہیم علیہ السلام کہیں گے: ’’اے رب! تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ تو مجھے اس دن رسوا نہیں کرے گا جب لوگ اٹھائے جائیں گے، تو میرے بدنصیب باپ سے بڑھ کر ذلت کیا ہو گی۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ’’ یقیناً میں نے جنت کافروں پر حرام کر دی ہے۔‘‘ پھر کہا جائے گا : ’’ابراہیم! تیرے پاؤں کے نیچے کیا ہے؟‘‘ وہ دیکھیں گے تو اچانک گندگی میں لت پت ایک بِجّو ہو گا، پھر اس بِجّو کو اس کی ٹانگوں سے پکڑ کر آگ میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘ گویا اللہ تعالیٰ مشرک پر جنت حرام کرنے کا قانون بھی قائم رکھیں گے اور ابراہیم علیہ السلام کو رسوا ہونے سے بھی بچا لیں گے کہ رسوائی تو تب ہو کہ لوگ دیکھیں کہ ابراہیم علیہ السلام کا باپ آگ میں جل رہا ہے۔ ایک بِجّو آگ میں جل رہا ہو تو کسی کو کیا خبر کہ یہ ابراہیم علیہ السلام کا باپ ہے۔