سورة الشعراء - آیت 84

وَاجْعَل لِّي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور پیچھے آنے والوں میں میرے لیے سچی ناموری رکھ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اجْعَلْ لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ....: ’’ لِسَانَ ‘‘ سے مراد تعریف ہے، کیونکہ وہ زبان سے ہوتی ہے۔ ’’ لِسَانَ صِدْقٍ ‘‘ سے مراد اچھی تعریف اور نیک شہرت ہے، یعنی قیامت تک آنے والی نسلوں میں مجھے سچی ناموری عطا فرما کہ وہ اچھے الفاظ میں میرا ذکر کرتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی، یہودی، عیسائی اور مسلمان سب انھیں اپنا پیشوا مانتے ہیں اور ان کا ذکرِ خیر کرتے ہیں۔ مسلمان تو نماز میں ’’كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰي إِبْرَاهِيْمَ‘‘ اور ’’كَمَا بَارَكْتَ عَلٰي إِبْرَاهِيْمَ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ [ دیکھیے بخاري : ۳۳۷۰ ] امام مالک رحمہ اللہ نے اس آیت سے استدلال فرمایا کہ آدمی کی اس خواہش میں کوئی حرج نہیں کہ اس کی نیک شہرت ہو۔ بعض اہلِ علم نے فرمایا کہ اس کا فائدہ آخرت میں یہ ہے کہ ممکن ہے کہ نیک اعمال میں اس کی شہرت سن کر کوئی شخص وہ اعمال کرنے لگے جس کا اجر اسے بھی ملے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقَصُ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْءٌ )) [مسلم، العلم، باب من سن سنۃ حسنۃ....: ۱۵ ؍۱۰۱۷، قبل ح : ۲۶۷۴، عن جریر بن عبد اللہ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’جو شخص اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کرے، پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے، تو اس کے لیے ان لوگوں جیسا اجر لکھا جائے گا جو اس پر عمل کریں گے اور ان کے اجروں سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ بعض مفسرین نے اس سے یہ بھی مراد لیا ہے کہ آخر زمانے میں میری نسل سے نبی ہو، جیسا کہ فرمایا : ﴿ رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ ﴾ [ البقرۃ : ۱۲۹ ] ’’اے ہمارے رب! اور ان میں انھی میں سے ایک رسول بھیج۔‘‘ مگر اس دعا کے الفاظ سے یہ مفہوم نہیں نکلتا۔