رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ
اے میرے رب! مجھے حکم عطا کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا۔
1۔ رَبِّ هَبْ لِيْ حُكْمًا: اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی صفات بیان کرنے کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی بارگاہ میں چند دعائیں کی ہیں۔ اس میں دعا کا ادب ملحوظ رکھا گیا ہے اور اس کا سلیقہ سکھایا گیا ہے کہ دعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف جس قدر ہو سکے کرو، پھر اپنی عرض داشت پیش کرو۔ سورۂ فاتحہ میں بھی یہی سبق سکھایا گیا ہے۔ 2۔ حُکْم کا معنی فیصلہ ہے، یعنی پروردگارا ! فیصلے کے لیے جو چیزیں درکار ہیں وہ سب مجھے عطا کر، یعنی اپنے دین کا پورا علم جس سے صحیح فیصلہ ہوتا ہے، پھر ہر معاملے کا صحیح فہم، پھر وہ اقتدار جس کے ساتھ فیصلہ نافذ ہوتا ہے۔ 3۔ وَّ اَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ: یعنی دنیا میں بھی صالح دوستوں اور ساتھیوں کی رفاقت عطا فرما اور آخرت میں بھی انھی کے ساتھ ملا دے۔ یوسف علیہ السلام نے بھی یہ دعا کی : ﴿ تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ ﴾ [ یوسف : ۱۰۱ ] ’’مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔‘‘ اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آخری وقت دعا کی تھی : (( اَللّٰهُمَّ فِي الرَّفِيْقِ الْأَعْلٰی )) ’’(اے اللہ!) مجھے سب سے بلند رفیقوں میں شامل فرما دے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا تین دفعہ کی۔ [بخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب : ۳۶۶۹، ۴۴۳۷ ]