أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الْأَرْضِ كَمْ أَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ
اور کیا انھوں نے زمین کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے اس میں کتنی چیزیں ہر عمدہ قسم میں سے اگائی ہیں۔
اَوَ لَمْ يَرَوْا اِلَى الْاَرْضِ....: اصل میں واؤ عطف پہلے ہے اور ہمزہ بعد میں ہے، چونکہ ہمزہ استفہام کلام کے شروع میں ہوتا ہے، اس لیے واؤ عطف کو بعد میں کر دیا۔ واؤ عطف سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے جملہ محذوف ہے جو خود بخود سمجھ میں آ رہا ہے، یعنی ’’أَلَمْ يَرَوْا إِلَی السَّمَاءِ وَ أَلَمْ يَرَوْا إِلَي الْأَرْضِ‘‘ ’’کیا انھوں نے آسمان کی طرف نہیں دیکھا اور کیا انھوں نے زمین کی طرف نہیں دیکھا۔‘‘ یہ اختصار کلام اللہ کا اعجاز ہے۔ (بقاعی) یعنی اگر وہ رسول پر اترنے والی آیات کو جھٹلائیں اور ان کا مذاق اڑائیں تو اس میں کون سا تعجب ہے، کیا انھوں نے اس سے پہلے آسمان، زمین اور اس میں پائی جانے والی ہر قسم کی بے شمار عمدہ ترین چیزیں نہیں دیکھیں؟ اگر انھوں نے اپنے خالق و مالک پر اور اس کی توحید پر ایمان لانا ہوتا تو یہ سب کچھ بطور دلیل کیا کم تھا، جب انھیں اس سے عبرت نہیں ہوئی تو آپ پر نازل ہونے والی آیات سے انھیں کیا عبرت ہو گی۔