وَمَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمَٰنِ مُحْدَثٍ إِلَّا كَانُوا عَنْهُ مُعْرِضِينَ
اور ان کے پاس رحمان کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی جو نئی ہو، مگر وہ اس سے منہ موڑنے والے ہوتے ہیں۔
1۔ وَ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ....: سورۂ انبیاء کی آیت (۴۲) میں ہے: ﴿عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ ﴾ اور یہاں فرمایا: ﴿مِنْ ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ ﴾ اس کی مناسبت یہ ہے کہ آپ جن کے غم میں پڑے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ رحمان اپنی رحمت سے جب ان کی بھلائی کے لیے کوئی نصیحت بھیجتا ہے، تو وہ اس سے منہ موڑنے والے ہوتے ہیں۔ ’’ مُحْدَثٍ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان کا یہ معاملہ اس نصیحت کے ساتھ ہے جو بار بار نئی سے نئی آتی رہتی ہے، اگر ایک آدھ دفعہ ہی آتی تو ان کا کیا حال ہوتا، اس لیے ان کے غم میں اپنے آپ کو ہلاک مت کریں۔ 2۔ ’’إِلَّا أَعْرَضُوْا عَنْهُ ‘‘ (مگر اس سے منہ موڑ لیتے ہیں) کے بجائے فرمایا: ﴿اِلَّا كَانُوْا عَنْهُ مُعْرِضِيْنَ﴾ ’’مگر وہ اس سے منہ موڑنے والے ہوتے ہیں‘‘ اس میں ان کے مسلسل اعراض کا بیان ہے۔ 3۔ قرآن مجید کے محدث ہونے کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ انبیاء کی آیت (۲) کی تفسیر۔