بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
سورۂ آل عمران کی فضیلت سورۂ بقرہ کی فضیلت کے ساتھ بیان ہو چکی ہے۔ اس سورت کے مدنی ہونے پر مفسرین کا اتفاق ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کی پہلی ۸۳ آیتیں وفد نجران کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو ۹ ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ (فتح القدیر) مگر ابن عاشور کی تحقیق یہ ہے کہ یہ وفد تقریباً ۳ ھ میں آیا ہے، کیونکہ اس پر اتفاق ہے کہ یہ سورت مدنی سورتوں کی ابتدائی سورتوں میں سے ہے۔ نزول کے اعتبار سے کل سورتوں میں اس کا نمبر ۴۸ واں ہے۔ ۹ ھ میں نازل ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کی غلطی کا باعث یہ ہے کہ وفود اس سال آئے تھے، جبکہ وفد نجران پہلے آ چکا تھا۔ [التحریر والتنویر] یہ وفد ساٹھ سواروں پر مشتمل تھا، جن میں چودہ ان کے معزز افراد بھی شامل تھے۔ تین آدمی ان سب میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ ان کا امیر عاقب تھا جس کا نام عبد المسیح تھا۔ دوسرا ’’سید‘‘ تھا اس کا نام الایہم تھا، یہ اس کا مشیر اور بہت سمجھدار تھا۔ تیسرا ابوحارثہ بن علقمہ الکبریٰ تھا، یہ ان کا لاٹ پادری تھا۔ ان سے دوسری باتوں کے علاوہ مسیح علیہ السلام کے خدا ہونے پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مناظرہ ہوا۔ آپ نے فرمایا:’’مسیح فنا ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ ہی ’’ حی ‘‘ یعنی ہمیشہ زندہ ہے اور رہے گا۔‘‘ آپ نے یہ اور دوسرے دلائل پیش کیے جس پر وہ خاموش ہو گئے، اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ بقیہ تفصیل کے لیے دیکھیے آیت مباہلہ ’’۶۱‘‘۔ (معالم، ابن کثیر)