وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ أَرَادَ أَن يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا
اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا، اس کے لیے جو چاہے کہ نصیحت حاصل کرے، یا کچھ شکر کرنا چاہے۔
1۔ وَ هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ خِلْفَةً: اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کی قدرت کا کمال اور نعمتوں کی یاد دہانی تینوں چیزیں موجود ہیں۔ یعنی رات اور دن ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں، رات جاتی ہے تو دن آ جاتا ہے اور دن جاتا ہے تو رات آ جاتی ہے۔ اگر ہمیشہ دن رہتا یا ہمیشہ رات رہتی تو زندگی اور اس کی مصروفیات کا سلسلہ باقی نہ رہ سکتا۔ (دیکھیے قصص : ۷۱ تا ۷۳) دن رات کے اس بدلنے میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ (دیکھیے بقرہ : ۱۶۴۔ آل عمران : ۱۹۰) ایک مطلب اس کا یہ ہے کہ دن اور رات گھٹتے بڑھتے اور ایک دوسرے کی جگہ آتے جاتے رہتے ہیں، جیسا کہ فرمایا: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَ يُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ﴾ [الحج : ۶۱ ] ’’یہ اس لیے کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘ طبری نے معتبر سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ سے ابن عباس رضی اللہ عنھما کی تفسیر نقل فرمائی ہے : ’’جس کا کوئی کام رات کو رہ جائے تو وہ دن کو پورا کر لیتا ہے اور دن کو رہ جائے تو رات کو پورا کر لیتا ہے۔‘‘ (طبری : ۲۶۶۶۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْسُطُ يَدَهُ بِاللَّيْلِ، لِيَتُوْبَ مُسِيْءُ النَّهَارِ، وَيَبْسُطُ يَدَهُ بِالنَّهَارِ، لِيَتُوْبَ مُسِيْءُ اللَّيْلِ، حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا )) [مسلم، التوبۃ، باب قبول التوبۃ من الذنوب....: ۲۷۵۹ ] ’’اللہ تعالیٰ رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے، تاکہ دن کو برائی کرنے والا شخص توبہ کر لے اور دن کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے، تاکہ رات کو برائی کرنے والا توبہ کر لے، یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا : ((مَنْ نَسِيَ صَلَاةً أَوْ نَامَ عَنْهَا، فَكَفَّارَتُهَا أَنْ يُصَلِّيَهَا إِذَا ذَكَرَهَا )) [ مسلم، المساجد، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ....:۳۱۵؍۶۸۴ ]’’جو شخص کسی نماز سے سویا رہ جائے یا بھول جائے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب اسے وہ یاد آئے پڑھ لے۔‘‘ امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ نَامَ عَنْ حِزْبِهِ أَوْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ فَقَرَأَهُ فِيْمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَ صَلَاةِ الظُّهْرِ، كُتِبَ لَهُ كَأَنَّمَا قَرَأَهُ مِنَ اللَّيْلِ )) [ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب جامع صلاۃ اللیل : ۷۴۷ ] ’’جو شخص اپنے مقرر کر دہ وظیفے سے یا اس کے کچھ حصے سے سویا رہ جائے، پھر اسے فجر کی نماز اور ظہر کی نماز کے درمیان پڑھ لے تو گویا اس نے اسے رات ہی میں پڑھا ہے۔‘‘ ’’ خِلْفَةً ‘‘ کا ایک معنی ’’مختلف‘‘ بھی ہے، قاموس میں ہے : ’’ اَلْخِلْفُ وَالْخِلْفَةُ بِالْكَسْرِ الْمُخْتَلِفُ‘‘ اس کے مطابق معنی یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کو روشنی اور اندھیرے میں، گرمی اور سردی میں، کام اور آرام میں ایک دوسرے سے مختلف بنایا ہے۔ 2۔ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا : یعنی کہ اگر کوئی کفر یا فسق کی وجہ سے غفلت میں مبتلا ہے اور چاہتا ہے کہ اسے کسی طرح نصیحت ہو تو دن رات کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے میں اس کے لیے بہت بڑی نصیحت ہے کہ اتنی بڑی تبدیلی وہی کر سکتا ہے جو لا محدود قدرت والا اور ہر طرح صاحب اختیار ہے، اوراگر کوئی مومن اور صالح ہے اور اللہ کا شکر ادا کرنا چاہتا ہے تو دن رات کی یہ تبدیلی بہت بڑی نعمت ہے، جس پر اسے شکر ادا کرنا لازم ہے۔ رات دن کے سلسلے میں ایک نصیحت ابن العربی نے ذکر فرمائی ہے کہ ایک آدمی جس کی عمر ساٹھ (۶۰) برس ہے، وہ رات سو کر گزار دیتا ہے، تو اس کی آدھی عمر بے کار گئی، پھر دن کا تقریباً چھٹا حصہ آرام میں گزر جاتا ہے، یوں کل دو تہائی چلا گیا۔ اس کے پاس ساٹھ (۶۰) سال کی عمر میں سے بیس (۲۰) برس رہ گئے۔ کتنی بڑی جہالت اور بے وقوفی ہے کہ آدمی اپنی عمر کا دو تہائی حصہ فانی لذت میں گزار دے اور عمر عزیز کو اس دائمی لذت کے حصول کے لیے خرچ نہ کرے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس اس کے لیے تیار کر رکھی ہے۔