وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
اور اگر تم کسی سفر پر ہو اور کوئی لکھنے والا نہ پاؤ تو ایسی گروی چیزیں لازم ہیں جو قبضے میں لے لی گئی ہوں، پھر اگر تم میں سے کوئی کسی پر اعتبار کرے تو جس پر اعتبار کیا گیا ہے وہ اپنی امانت ادا کرے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور شہادت مت چھپاؤ اور جو اسے چھپائے تو بے شک وہ، اس کا دل گناہ گار ہے اور اللہ جو کچھ تم کر رہے ہو اسے خوب جاننے والا ہے۔
1۔ وَ اِنْ كُنْتُمْ عَلٰى سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا....: یہ بیع اور قرض کی ایک دوسری شکل ہے، یعنی اگر تم سفر میں قرض کا معاملہ کرو اور تمہیں لکھنے والا نہ مل سکے، یا لکھنے کے لیے قلم دوات وغیرہ میسر نہ ہوں تو مقروض کو چاہیے کہ قرض دینے والے کے پاس کوئی چیز رہن (گروی) رکھ دے۔ سفر کا ذکر اس لیے کیا کہ یہ معاملہ زیادہ تر سفر میں پیش آتا ہے، ورنہ رہن (گروی ) رکھنا حضر میں بھی جائز ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھ کر عملاً اس کی وضاحت کر دی۔ [بخاری، البیوع، باب شراء الإمام الحوائج بنفسہ:۲۰۹۶۔ مسلم:۱۶۰۳ ] چنانچہ سفر میں رہن نص قرآنی سے ثابت ہے اور حضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے۔ (شوکانی ) 2۔ جو چیز رہن رکھی جائے اگر دودھ والا جانور ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چارا ڈالنے کے بدلے اس کا دودھ پینے کی اجازت دی، اسی طرح گھوڑے، اونٹ، گدھے یا خچر وغیرہ پر اس کے چارے کے بدلے سواری کی اجازت دی۔ [بخاری، فی الرھن فی الحضر، باب الرھن مرکوب:۲۵۱۱ عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ان کے علاوہ گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانا منع ہے، یہ سود کے زمرے میں آتا ہے، مثلاً قرض پر رقم لے کر زمین رہن رکھ دی جائے تو گروی لینے والا اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا بلکہ اگر کاشت کرے تو اس کا ٹھیکہ وغیرہ قرض میں وضع کرنا ہو گا۔ 3۔ فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهٗ:مطلب یہ کہ اگر کوئی شخص قرض لینے والے کا اعتبار کرے اور اس کی کوئی چیز رہن رکھے بغیر اسے قرض دے دے تو اسے بھی چاہیے کہ اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کا قرض ادا کر دے۔ 4۔ فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ:اس میں ’’اٰثِمٌ ‘‘ (گناہ) کی نسبت دل کی طرف کی ہے، اس لیے کہ چھپانا دل کا فعل ہے اور سب سے پہلے اس کا خیال دل ہی میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ وعید ہے کہ شہادت چھپانا اتنا سنگین گناہ ہے کہ اس سے دل گناہ گار ہو جاتاہے۔ [نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( اَكْبَرُ الْكَبَائِرِ، اَلْاِشْرَاكُ بِاللّٰهِ وَ قَتْلُ النَّفْسِ وَ عُقُوْقُ الْوَالِدَيْنِ وَ قَوْلُ الزُّوْرِ أَوْ قَالَ وَ شَهَادَةُ الزُّوْرِ)) ’’کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ اللہ کے ساتھ شریک بنانا، کسی شخص کو قتل کرنا، والدین کی نافرمانی اور جھوٹی بات، یا فرمایا، جھوٹی گواہی ہیں۔‘‘ [بخاری، الدیات، باب:﴿و من أحیاھا ﴾:۶۸۷۱، عن أنس رضی اللّٰہ عنہ ] ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:’’گواہی چھپانا بھی اکبر الکبائر میں سے ہے۔‘‘(طبری)