يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلَائِكَةَ لَا بُشْرَىٰ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِينَ وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَّحْجُورًا
جس دن وہ فرشتوں کو دیکھیں گے اس دن مجرموں کے لیے خوشی کی کوئی خبر نہ ہوگی اور کہیں گے (کاش! ہمارے اور ان کے درمیان) ایک مضبوط آڑ ہو۔
1۔ يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلٰٓىِٕكَةَ لَا بُشْرٰى يَوْمَىِٕذٍ لِّلْمُجْرِمِيْنَ: یعنی رب تعالیٰ کو دیکھنا تو بہت دور، فرشتوں کو دیکھنا بھی معمولی بات نہیں، جس دن وہ فرشتوں کو دیکھیں گے اس دن ان مجرموں کے لیے کوئی خوشی کی خبر نہیں ہو گی، کیونکہ وہ ان کے لیے عذاب ہی لے کر آتے ہیں (حجر : ۸) خواہ وہ دنیا میں کوئی عذاب لے کر آئیں یا موت کے وقت ان کے پاس آئیں (انعام : ۹۳۔ انفال : ۵۰۔ محمد : ۲۷، ۲۸) یا قیامت کے دن انھیں دکھائی دیں۔ 2۔ وَ يَقُوْلُوْنَ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا: ’’ حِجْرًا ‘‘ کا معنی آڑ، رکاوٹ ہے، ’’ مَحْجُوْرًا ‘‘ تاکید کے لیے ہے، یعنی بہت مضبوط رکاوٹ۔ یعنی جب مجرم فرشتوں کو دیکھیں گے تو چاہیں گے کہ ان کے اور فرشتوں کے درمیان کوئی مضبوط آڑ ہو، کوئی سخت رکاوٹ ہو جس کے ذریعے سے وہ ان سے بچ جائیں۔