قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنبَغِي لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ وَلَٰكِن مَّتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ نَسُوا الذِّكْرَ وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا
وہ کہیں گے تو پاک ہے، ہمارے لائق نہ تھا کہ ہم تیرے سوا کسی بھی طرح کے دوست بناتے اور لیکن تو نے انھیں اور ان کے باپ دادا کو سامان دیا، یہاں تک کہ وہ (تیری) یاد کو بھول گئے اور وہ ہلاک ہونے والے لوگ تھے۔
1۔ قَالُوْا سُبْحٰنَكَ مَا كَانَ يَنْۢبَغِيْ لَنَا....: یعنی جب ہم خود تیرے سوا کسی کو یارو مددگار نہیں سمجھتے تھے اور تیری توحید پر قائم تھے، تو لوگوں کو اپنے بارے میں کس طرح کہہ سکتے تھے کہ تم اللہ کے بجائے ہمیں اپنا حاجت روا اور مشکل کشا بنا لو۔ یہ بات تو ہمیں زیب ہی نہیں دیتی۔ دیکھیے آل عمران (۷۹، ۸۰)۔ 2۔ وَ لٰكِنْ مَّتَّعْتَهُمْ وَ اٰبَآءَهُمْ....: ’’ بُوْرًا ‘‘ ’’ بَارَ يَبُوْرُ ‘‘ سے مصدر بمعنی اسم فاعل برائے مبالغہ ہے، یا ’’بَائِرٌ‘‘ کی جمع ہے، ہلاک ہونے والے، یعنی ہم نے انھیں گمراہ نہیں کیا، بلکہ یہ خود ہی کم ظرف اور کمینے لوگ تھے، تو نے انھیں اور ان کے آبا و اجداد کو ہر قسم کا رزق دیا، یہ کھا پی کر نمک حرام ہو گئے، حتیٰ کہ تیری یاد بھی بھول گئے، جو انھیں سب نعمتیں دینے والا تھا۔ ’’ الذِّكْرَ ‘‘ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ یہ لوگ وہ نصیحتیں بھول گئے جو انبیاء نے انھیں کی تھیں۔ دیکھیے سورۂ انبیاء (۴۴)۔