يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ۚ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! لازم ہے کہ تم سے اجازت طلب کریں وہ لوگ جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہوئے اور وہ بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہیں پہنچے، تین بار، فجر کی نماز سے پہلے اور جس وقت تم دوپہر کو اپنے کپڑے اتار دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین تمھارے لیے پردے (کے وقت) ہیں، ان کے بعد نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر۔ تم پر کثرت سے چکر لگانے والے ہیں، تمھارے بعض بعض پر۔ اسی طرح اللہ تمھارے لیے آیات کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ خوب جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
1۔ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِيَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ....: یہاں سے پھر انھی احکام کی تکمیل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو آیت (۳۴) تک بیان ہو رہے تھے۔ اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر فرمایا جنھیں گھر میں داخلے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں اور یہ بھی کہ تین اوقات میں انھیں بھی اجازت لینا ضروری ہے۔ یہ دو قسم کے لوگ ہیں، آدمی کے لونڈی و غلام اور نابالغ بچے۔ انھیں داخلے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں، کیونکہ گھروں میں ان کا آنا جانا کثرت سے ہوتا ہے اور ان پر اجازت کی پابندی لگانے سے دشواری اور تنگی پیدا ہوتی ہے۔ ’’ طَوّٰفُوْنَ عَلَيْكُمْ ‘‘ میں یہی حکمت بیان ہوئی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام میں انسانوں کی آسانی کو مدنظر رکھا ہے اور اس کے ہر حکم میں حکمت ہے، خواہ ہمیں معلوم ہو سکے یا نہ ہو سکے۔ 2۔ ’’ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ‘‘ سے مراد تین اوقات ہیں، یعنی ان تین اوقات میں اجازت مانگیں، جن کا ذکر آگے فرمایا ہے، یعنی نمازِ فجر سے پہلے، دوپہر کو آرام کے وقت جب عموماً آرام کے لیے کپڑے اتار دیے جاتے ہیں اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تینوں وقت پردے کے اوقات ہیں، ان اوقات میں آدمی ایسی حالت میں بھی ہوتا ہے کہ جس پر کسی کا بھی مطلع ہونا درست نہیں۔ ’’ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ‘‘ کی ایک تفسیر یہ ہے کہ غلام اور بچے بھی ان تین اوقات میں تین دفعہ اجازت مانگیں، اجازت مل جائے تو اندر آ جائیں ورنہ واپس چلے جائیں۔ (بقاعی) اس تفسیر میں ’’ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ‘‘ کے لفظ سے محض گنتی بتانے کے بجائے ایک مستقل حکم معلوم ہوتا ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب لوگوں کے لیے تمام اوقات میں اپنے گھر کے سوا دوسرے گھروں میں جانے کے متعلق بیان فرمایا کہ اجازت مانگنا تین دفعہ ہے، اگر مل جائے تو بہتر ورنہ واپس ہو جانا چاہیے۔ [ دیکھیے بخاري : ۶۲۴۵۔ أبوداؤد : ۵۱۸۰ ] اس آیت میں ان تین اوقات میں غلاموں اور بچوں کو بھی تین دفعہ اجازت مانگنے کا پابند فرمایا۔ 3۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَ لَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّ : یعنی ان تین اوقات کے سوا غلام اور بچے بلااجازت آ جا سکتے ہیں۔ اس وقت اگر کوئی ایسی حالت میں ہے جو مناسب نہیں تو غلاموں اور بچوں کا قصور نہیں، خود اس کی نالائقی ہے۔ 4۔ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ : آیات کو کھول کر وہی بیان کر سکتا ہے جس کا علم کامل ہو اور حکمت بھی کامل ہو، کوئی دوسرا جتنی وضاحت بھی کرلے اپنے علم و حکمت کی نارسائی کی وجہ سے اس کی بات پوری ہی نہیں ہو گی، پوری طرح واضح ہونا تو دور کی بات ہے۔