فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ
پھر اگر تم نے یہ نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بڑی جنگ کا اعلان سن لو اور اگر توبہ کرلو تو تمھارے لیے تمھارے اصل مال ہیں، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔
1۔ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ:”بِحَرْبٍ“ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ’’بڑی جنگ ‘‘ ترجمہ کیا ہے۔ ’’أَذِنَ يَأْذَنُ (س)‘‘ کا صلہ اگر لام ہو، مثلاً ’’أَذِنَ لَهُ‘‘ تو اس کا معنی ’’اِسْتَمَعَ‘‘ ہوتا ہے یعنی کان لگانا، سننا اور اگر ’’أَذِنَ بِهِ‘‘ ہو تو اس کا معنی ’’عَلِمَ بِهِ‘‘ ہوتا ہے یعنی جاننا، آگاہ ہونا، خبر دار ہونا۔ (قاموس) یعنی اگر تم نے سود نہ چھوڑا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ سے آگاہ اور خبردار ہو جاؤ اور یہ وہ وعید ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے دوسرے کسی جرم کے بارے میں اتنے واضح الفاظ میں نہیں دی گئی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما ، ابن سیرین، حسن بصری اور بعض دیگر ائمہ رحمتہ اللہ علیہم کے نزدیک سود خور کو توبہ پر مجبور کیا جائے گا، اگر پھر بھی روش نہ بدلے تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ (ابن کثیر) 2۔ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ:یعنی اصل مال سے زائد وصول کرو تو یہ تمہارا لوگوں پر ظلم ہو گا اور اگر تمہیں اصل مال بھی نہ ملے تو یہ لوگوں کا تم پر ظلم ہو گا اور یہ دونوں چیزیں ہی انصاف کے خلاف ہیں۔ (ابن کثیر)