سورة النور - آیت 23

إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک وہ لوگ جو پاک دامن، بے خبر مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں لعنت کیے گئے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ....: ’’ الْغٰفِلٰتِ ‘‘ (بے خبر) سے مراد وہ سیدھی سادی شریف عورتیں ہیں جن کے دل پاک ہیں اور ان کے دل میں بدچلنی کا بھولے سے بھی خیال نہیں آتا، ان میں سے کسی پر تہمت لگانا کبیرہ گناہ اور لعنت کا باعث ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ، قَالُوْا يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! وَمَا هُنَّ؟ قَالَ الشِّرْكُ بِاللّٰهِ وَالسِّحْرُ وَ قَتْلُ النَّفْسِ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَ أَكْلُ الرِّبَا وَ أَكْلُ مَالِ الْيَتِيْمِ وَالتَّوَلِّيْ يَوْمَ الزَّحْفِ وَ قَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلاَتِ )) [ بخاري، الحدود، باب رمي المحصنات : ۶۸۵۷ ] ’’سات ہلاک کر دینے والی چیزوں سے بچو۔‘‘ صحابہ نے پوچھا : ’’یا رسول اللہ! وہ ہلاک کرنے والی چیزیں کیا ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کے ساتھ شرک، جادو، اس جان کو قتل کرنا جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن بھاگ جانا اور پاک دامن مومن و غافل عورتوں پر تہمت لگانا۔‘‘ یہاں جب عام پاک دامن غافل و مومن عورتوں پر تہمت لگانا لعنت کا باعث ہے تو امہات المومنین خصوصاً عائشہ رضی اللہ عنھا کے بارے میں بدزبانی کرنے والے کا کیا حال ہو گا، جن کی براء ت خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی۔ اب ان پر تہمت لگانے والا صرف تہمت کا مجرم نہیں بلکہ قرآن کو جھٹلانے کا بھی مجرم ہے اور قرآن کو جھٹلانے والا کافر ہے۔ 2۔ یہاں پاک دامن غافل و مومن عورتوں پر بہتان کی جتنی شدید وعید آئی ہے وہ عموماً کفار ہی کے لیے ہے کہ دنیا و آخرت میں ان پر لعنت ہے اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے، جو جہنم ہی ہو سکتا ہے اور قیامت کے دن ان کے اعضا ان کے خلاف گواہی دیں گے، جو کفار کے ساتھ کیا جانے والا معاملہ ہے، جیسا کہ سورۂ حٰم سجدہ (۱۹ تا ۲۳) میں ہے، اس لیے اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ ’’اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ....‘‘سےمراد عبد اللہ بن ابی اور اس کےمنافق ساتھی ہیں اور ’’الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ‘‘سے مراد امہات المومنین خصوصاً عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھن ہیں۔ ’’اِنَّ الَّذِيْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ‘‘سے لے کر تمام آیات کے تسلسل سے یہ معنی درست معلوم ہوتا ہے، مگر آیت کے الفاظ عام ہونے کی وجہ سے (کہ جو لوگ بھی پاک دامن غافل و مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں، وہ عورتیں جو بھی ہوں، ان کے لیے یہ وعید ہے) اگر مراد عام ہو کہ ہر تہمت لگانے والے کے لیے یہ وعید ہے تو اس سے مراد وہ تہمت لگانے والے ہوں گے جو تہمت لگانے کو حلال سمجھتے ہیں، یا جنھوں نے توبہ نہیں کی، کیونکہ اس سے پہلی آیات میں توبہ کرنے والوں کے ساتھ حسن سلوک کا اور ان کی سابقہ نیکیاں پیشِ نظر رکھنے کا حکم ہے۔ اس آیت میں یہ بھی اشارہ ہے کہ قذف سے توبہ نہ کرنے والوں کی موت کفر پر ہونے کا خطرہ ہے۔ اللہ سب مسلمانوں کو محفوظ رکھے۔ 3۔ یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ یہ ساری وعید پاک دامن غافل و مومن عورتوں پر بہتان کی آئی ہے، مردوں پر بہتان کا ذکر کیوں نہیں فرمایا؟ جواب اس کا یہ ہے کہ ’’ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ ‘‘ پر بہتان عموماً کسی مومن مرد کے ساتھ ہی لگایا جائے گا، اس لیے اسے الگ سے ذکر نہیں کیا گیا۔