وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُم مَّا يَكُونُ لَنَا أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَٰذَا سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ
اور کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو کہا ہمارا حق نہیں ہے کہ ہم اس کے ساتھ کلام کریں، تو پاک ہے، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔
وَ لَوْ لَا اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ....: اس سے پہلے آیت (۱۳) میں یہ ادب سکھایا تھا کہ جب اچھے لوگوں کے بارے میں کوئی نامناسب بات سنی جائے تو ان کے متعلق اچھا گمان رکھنا لازم ہے۔ اب اس کے متعلق دوسرا ادب بیان فرمایا کہ اگر کوشش کے باوجود کوئی وسوسہ یا خیال دل میں آ جائے تو اسے زبان پر ہر گز نہ لائے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((إِنَّ اللّٰهَ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِيْ عَمَّا وَسْوَسَتْ أَوْ حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ بِهِ أَوْ تَكَلَّمْ )) [ بخاري، الأیمان والنذور، باب إذا حنث ناسیا....: ۶۶۶۴، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے ان باتوں سے درگزر فرمایا ہے جو وہ اپنے دل میں کریں، جب تک وہ اسے قول یا عمل میں نہ لائیں۔‘‘ یعنی جب تم نے یہ بات سنی تو بجائے اس کے کہ اس پر خاموش رہتے، یا اس پر یقین کرتے، یا اسے آگے پھیلاتے، تم نے سنتے ہی یہ کیوں نہ کہا کہ ہمارا حق نہیں کہ ہم یہ بات زبان پر لائیں، بلکہ ایسی بات سے اپنی شدید نفرت کے اظہار کے لیے ساتھ ہی یہ بھی کہنا تھا: ﴿سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ ﴾ تو پاک ہے کہ تیرے نبی کی بیوی بدکاری کے ارتکاب سے آلودہ ہو، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔ کیونکہ ممکن ہی نہیں کہ نبی کی بیوی بدکار ہو، وہ کافر تو ہو سکتی ہے، بدکار نہیں، کیونکہ انبیاء کفار کی طرف مبعوث ہوتے ہیں تو ضروری ہے کہ جو چیز کفار کے نزدیک قابل نفرت ہو وہ اس سے پاک ہوں اور ظاہر ہے کہ عورت کی بدکاری ان کے نزدیک بھی قابل نفرت ہے۔