وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ
اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے، جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں تو اس کا حساب صرف اس کے رب کے پاس ہے۔ بے شک حقیقت یہ ہے کہ کافر فلاح نہیں پائیں گے۔
1۔ وَ مَنْ يَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ ....: ’’جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے‘‘ کے بعد ’’جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں‘‘ کا یہ مطلب نہیں کہ کسی دوسرے ایسے معبود کو پکارنا جائز ہے جس کی کوئی دلیل کسی کے پاس موجود ہو۔ بلکہ یہ جملہ معترضہ ہے، جس کا مقصد اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا ہے کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو پکارنے کی کوئی دلیل ہے ہی نہیں، نہ عقلی، نہ نقلی۔ (دیکھیے احقاف : ۴) یہ ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ جو شخص کسی پر ظلم کرے، جس کا اسے کوئی حق نہیں تو وہ اس کا بدلا پائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی ایسا ظلم بھی ہوتا ہے جس کا کسی کو حق حاصل ہے، بلکہ مقصد ظلم کی برائی بیان کرنا ہے کہ ظلم کا حق کسی کو بھی نہیں۔ 2۔ رازی نے اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ غور و فکر کے بعد دلیل پر عمل کرنا حق ہے اور تقلید (بلا دلیل کسی بات کو لے لینا) باطل ہے۔ 3۔ فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ : یعنی اس کا یہ جرم اتنا بڑا ہے کہ اس کی سزا کا کوئی شخص حساب نہیں کر سکتا، نہ اندازہ کر سکتا ہے۔ اس کا حساب صرف اس کے رب کے پاس ہے اور وہی اس کی سزا جانتا ہے۔ لوگوں کو اس نے صرف اتنا بتایا ہے کہ میں یہ جرم کسی صورت بھی معاف نہیں کروں گا، اس کے سوا جو بھی گناہ ہے، جسے چاہوں گا بخش دوں گا۔ (دیکھیے نساء : ۴۸، ۱۱۶) اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تسلی ہے کہ آپ کا کام پیغام پہنچانا ہے، حساب لینا ہمارا کام ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَ عَلَيْنَا الْحِسَابُ﴾ [ الرعد : ۴۰ ] ’’تو تیرے ذمے صرف پہنچا دینا ہے اور ہمارے ذمے حساب لینا ہے۔‘‘ 4۔ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ : ’’إِنَّ‘‘ کے بعد ضمیر ’’هٗ‘‘ پیچھے کسی لفظ کی طرف نہیں لوٹتی، اسے ضمیر شان کہتے ہیں۔ یہ کسی بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرانے کے لیے ہوتی ہے۔ اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’بے شک حقیقت یہ ہے کہ۔‘‘ ’’کافر فلاح نہیں پائیں گے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو پکارنے والے کافر ہیں اور کافر فلاح نہیں پائیں گے۔ 5۔ سورت کی ابتدا ان لوگوں کے ذکر سے ہوئی تھی جو فلاح پانے والے ہیں اور اختتام ان لوگوں کے ذکر سے ہو رہا ہے جو فلاح نہیں پائیں گے۔