لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ
تاکہ میں جو کچھ چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کرلوں۔ ہرگز نہیں، یہ تو ایک بات ہے جسے وہ کہنے والا ہے اور ان کے پیچھے اس دن تک جب وہ اٹھائے جائیں گے، ایک پردہ ہے۔
1۔ لَعَلِّيْ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ : تاکہ میں جو کچھ مال و متاع چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کر لوں، یا اس دنیا میں جا کر کوئی نیک عمل کر لوں جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے : ’’قتادہ نے آیت : ﴿ حَتّٰى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ﴾ کے متعلق کہا کہ علاء بن زیاد فرمایا کرتے تھے کہ آدمی کو چاہیے کہ اپنے آپ کو اس مرنے والے کی جگہ رکھ کر سوچے کہ گویا اس کی موت آ پہنچی تھی اور اس نے رب تعالیٰ سے مہلت مانگی تو اسے مل گئی، سو وہ اس مہلت میں جس قدر ہو سکے اللہ تعالیٰ کی بندگی کر لے۔ اور قتادہ نے فرمایا، اللہ کی قسم! نہ وہ گھر والوں کی طرف جانے کی تمنا کرے گا، نہ اولاد کی طرف، بلکہ یہی تمنا کرے گا کہ واپس جا کر اللہ کی اطاعت کر لے۔ سو کوتاہی کرنے والے کافر کی آرزو دیکھو اور ملی ہوئی مہلت سے فائدہ اٹھا کر اس پر عمل کر لو۔ ‘‘ 2۔ كَلَّا : اس کے دو معنی ہیں اور دونوں مراد ہیں، ایک یہ کہ ہر گز ایسا نہ ہو گا کہ تم دنیا میں واپس جاؤ اور دوسرا یہ کہ تمھارا کہنا کہ میں واپس جا کر نیک عمل کروں گا، ہر گز درست نہیں۔ 3۔ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآىِٕلُهَا : یعنی یہ صرف ایک بات ہو گی جو وہ کہے گا، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہو گا، بلکہ وہ صاف جھوٹ کہہ رہا ہو گا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ لَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ﴾ [ الأنعام : ۲۸ ] ’’اور اگر انھیں واپس بھیج دیا جائے تو ضرور پھر وہی کریں گے جس سے انھیں منع کیا گیا اور بلاشبہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔‘‘ دوسرا مطلب یہ کہ یہ صرف اس کے منہ کی بات ہو گی جو وہ بار بار کہے گا، مگر اسے اس کا کچھ فائدہ نہیں ہو گا اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسی بات ہے جو ہر کافر مرتے وقت ضرور ہی کہنے والا ہے۔ 4۔ وَ مِنْ وَّرَآىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ : ’’وَرَاءٌ‘‘ کا معنی آگے بھی ہے اور پیچھے بھی، یہاں دونوں معنی مراد ہیں کہ آگے ایک اور عالم برزخ آ رہا ہے، جسے قبر کی زندگی بھی کہا جاتا ہے، جہاں پہنچ کر دنیا والوں سے پردہ ہو جاتا ہے اور آخرت بھی سامنے نہیں آتی۔ ہاں کافر کے لیے آخرت کے عذاب کا تھوڑا سا نمونہ سامنے آتا ہے، جس کا مزہ قیامت تک چکھتا رہے گا۔ اسی طرح اہل ایمان کے لیے راحت و نعمت میسر ہوتی ہے۔ دونوں کا احادیث میں ذکر ہے اور آیات میں بھی۔ دیکھیے سورۂ مؤمن (۴۵، ۴۶)۔