سورة المؤمنون - آیت 97

وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور تو کہہ اے میرے رب! میں شیطانوں کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ قُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ ....: ’’اَلْهَمْزُ‘‘ کا معنی ہاتھ یا کسی بھی چیز کے ساتھ چونکا مارنا ہے۔ گلا گھونٹنے، طعنہ دینے اور غیبت کے معنی میں بھی آتا ہے۔ مراد شیطان کے چونکے، وسوسے اور اکساہٹیں ہیں، جن کے ساتھ وہ غصے پر ابھارتا ہے، حتیٰ کہ جنون تک پہنچا دیتا ہے۔ شیاطین انس و جن کے وساوس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ ناس کی تفسیر۔ ’’ اَنْ يَّحْضُرُوْنِ ‘‘ اصل میں ’’أَنْ يَّحْضُرُوْنِيْ‘‘ ہے، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ’’ اَنْ ‘‘ کے ساتھ ’’ يَحْضُرُوْنِ ‘‘ کا نون گر جاتا، یاء کو حذف کرکے نون کا کسرہ باقی رکھا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے میرے رب! میں صرف شیاطین کے چونکوں ہی سے تیری پناہ نہیں مانگتا، اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں، کیونکہ انھوں نے خیر کے ساتھ تو آنا ہی نہیں۔ برے لوگوں کی صحبت سے بھی بچنے کی دعا سکھائی۔ 2۔ برائی کا جواب نیکی سے دینا اگرچہ دشمنوں کو دوست بنانے کے لیے اکسیر ہے، مگر اس کے لیے بہت بڑے حوصلے کی ضرورت ہے، ہر شخص میں یہ برداشت نہیں پائی جاتی، آدمی کا نفس اسے انتقام پر ابھارتا ہے، پھر انسانوں اور جنوں میں سے شیطان اسے اکسا کر غصہ دلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے برائی کا جواب بہترین طریقے کے ساتھ دینے کی تلقین کے بعد ایسے شیطان انسانوں اور جنوں کی اکساہٹوں سے اپنی پناہ مانگنے کی تاکید فرمائی، کیونکہ ان ظالموں کا مقابلہ کرنے میں انسان بے بس ہے۔ یہاں اس کی کوئی تدبیر کام نہیں آتی، نہ ہی وہ شیطان کسی نیکی یا احسان سے دوست بنتے یا نرم ہوتے ہیں، کیونکہ انھوں نے دشمنی کی قسم کھا رکھی ہے۔ اس لیے اسے اس ذات گرامی کی پناہ میں آ جانا چاہیے جس کے قبضے میں کائنات کی ہر چیز ہے، نیک ہو یا بد ہر ایک کی پیشانی اس کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری جگہ یہی بات تفصیل سے بیان فرمائی : ﴿وَ لَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّيِّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ (34) وَ مَا يُلَقّٰىهَا اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَ مَا يُلَقّٰىهَا اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ (35) وَ اِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۳۴ تا ۳۶ ] ’’اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ (برائی کو) اس (طریقے) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوگا جیسے وہ دلی دوست ہے۔ اور یہ چیز نہیں دی جاتی مگر انھی کو جو صبر کریں اور یہ نہیں دی جاتی مگر اسی کو جو بہت بڑے نصیب والا ہے۔ اور اگر کبھی شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ تجھے ابھار ہی دے تو اللہ کی پناہ طلب کر، بلاشبہ وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید پڑھتے وقت شیطان سے پناہ مانگنے کا حکم دیا۔ ( النحل : ۹۸) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے وقت شیطان کے گمراہ کرنے سے دعا کی تعلیم دی، ابو الیسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے : (( أَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْهَدْمِ وَ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ التَّرَدِّيْ، وَ أَعُوْذُ بِكَ منَ الْغَرَقِ وَالْحَرَقِ وَالْهَرَمِ وَ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ أَنْ يَتَخَبَّطَنِيَ الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ وَ أَعُوْذُ بِكَ أَنْ أَمُوْتَ فِيْ سَبِيْلِكَ مُدْبِرًا وَ أَعُوْذُ بِكَ أَنْ أَمُوْتَ لَدِيْغًا )) [ أبوداؤد، الوتر، باب في الإستعاذۃ : ۱۵۵۲، و صححہ الألباني ]’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں (اپنے اوپر) دیوار وغیرہ گرنے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں نیچے گر جانے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں غرق ہونے سے، جلنے سے اور شدید بڑھاپے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں کہ شیطان مجھے موت کے وقت خبطی بنا دے اور اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ تیرے راستے میں پیٹھ دیتا ہوا مروں اور تیری پناہ مانگتا ہوں کہ زہریلے ڈنک سے مروں۔‘‘ کسی خاص وقت ہی میں نہیں، بلکہ ’’وَ اَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ يَّحْضُرُوْنِ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ’’اے میرے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ شیاطین میرے پاس کسی بھی وقت آئیں یا موجود ہوں۔‘‘ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام کاموں کے شروع میں اللہ کا نام لینے کا حکم دیا، کیونکہ اللہ کا نام لینے سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے، جماع اور ذبح وغیرہ کے شروع میں اللہ کا نام لینے کا حکم دیا، رات کو اللہ کا نام لے کر سونے کا حکم دیا اور فرمایا : (( وَ أَغْلِقُوا الْأَبْوَابَ، وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لاَ يَفْتَحُ بَابًا مُغْلَقًا، وَ أَوْكُوْا قِرَبَكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ، وَ خَمِّرُوْا آنِيَتَكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ، وَلَوْ أَنْ تَعْرُضُوْا عَلَيْهَا شَيْئًا وَ أَطْفِؤا مَصَابِيْحَكُمْ )) [ بخاري، الأشربۃ، باب تغطیۃ الإناء : ۵۶۲۳۔ مسلم : ۹۷؍۲۰۱۲ ] ’’ (جب رات کی ایک گھڑی گزر جائے تو) دروازے بند کر لو اور اس وقت اللہ کا نام لو، کیونکہ شیطان بند دروازے کو نہیں کھولتا اور اللہ کا نام لے کر اپنے مشکیزوں کا منہ باندھ دو۔ اللہ کا نام لے کر اپنے برتنوں کو ڈھانپ دو، خواہ کسی چیز کو چوڑائی میں رکھ کر ہی ڈھانپ سکو اور اپنے چراغ ( سونے سے پہلے ) بجھا دیا کرو۔‘‘ ہمارے استاذ حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ ان کے پاس ایک شخص نے شکایت کی کہ رات کو اچانک گھر کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں، تو انھوں نے رات بسم اللہ پڑھ کر دروازے بند کرنے کی نصیحت کی تو دروازوں کا کھلنا ختم ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کے وقت بھی شیطان سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی۔ سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دو آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دوسرے کو گالی دینے لگے، ہم آپ کے پاس بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک دوسرے کو سخت غصے میں گالی دے رہا تھا، اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((إِنِّيْ لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَوْ قَالَهَا لَذَهَبَ عَنْهُ مَا يَجِدُ، لَوْ قَالَ أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ، فَقَالُوْا لِلرَّجُلِ أَلَا تَسْمَعُ مَا يَقُوْلُ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ؟ قَالَ إِنِّيْ لَسْتُ بِمَجْنُوْنٍ )) [ بخاري، الأدب، باب الحذر من الغضب : ۶۱۱۵ ] ’’میں ایک کلمہ جانتا ہوں، اگر یہ شخص وہ کلمہ کہہ دے تو جو غصہ اسے آیا ہوا ہے چلا جائے۔ وہ کلمہ ’’أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ‘‘ ہے۔‘‘ لوگوں نے اسے کہا : ’’سنتے نہیں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں؟‘‘ وہ کہنے لگا : ’’میں کوئی پاگل نہیں ہوں۔‘‘