وَإِنَّا عَلَىٰ أَن نُّرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقَادِرُونَ
اور بے شک ہم اس بات پر کہ تجھے وہ (عذاب) دکھائیں جس کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں، ضرور قادر ہیں۔
1۔ وَ اِنَّا عَلٰى اَنْ نُّرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقٰدِرُوْنَ :’’إِنَّ‘‘ اور ’’لام‘‘ کے ساتھ تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین مکہ پر عذاب کا وہ وعدہ پورا ہوتا ہوا آنکھوں سے دکھا دیا، جب کہ آپ اس وقت ان سے الگ ہو چکے تھے اور مدینہ کی طرف ہجرت کر چکے تھے۔ چنانچہ اس عذاب کی ابتدا بدر سے ہوئی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار قریش کے سرداروں کی لاشیں کنویں میں پھینکنے کا حکم دیا اور پھر اس کنویں کے کنارے پر کھڑے ہو کر ایک ایک کا نام لے کر فرمایا : (( فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ؟ )) [ بخاري، المغازي، باب قتل أبي جھل : ۳۹۷۶ ] ’’یقیناً ہم نے تو وہ وعدہ سچا پا لیا جو ہمارے رب نے ہم سے کیا تھا، تو کیا تم نے بھی وہ وعدہ سچا پایا جو تمھارے رب نے تم سے کیا تھا؟‘‘ پھر ہجرت کے آٹھویں سال مکہ فتح ہو گیا اور دسویں سال حُجۃ الوداع کے موقع پر مشرکین کو چار ماہ کی مہلت دی گئی کہ اسلام قبول کر لیں یا جزیرۃ العرب خالی کر دیں اور یہاں سے نکل جائیں، ورنہ جہاد کے ذریعے سے ان کا کلی خاتمہ کر دیا جائے گا۔ یہ عذاب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں ان پر نازل ہوا، پھر خلفائے راشدین کے زمانے میں آس پاس کے ممالک سے شرک اور مشرکین کا خاتمہ ہوا اور اسلام کا بول بالا ہوا۔ (والحمد للہ) 2۔ اگر عذاب سے مراد آسمان سے نازل ہونے والا عذاب ہو، جیسا کہ عاد و ثمود پر نازل ہوا، تو مطلب یہ ہو گا کہ ہم ان سے عذاب کا جو وعدہ کر رہے ہیں یقیناً آپ کو دکھانے پر قادر ہیں، مگر ایک تو موسیٰ علیہ السلام کے بعد ہم نے طے کیا ہے کہ جہاد کے ذریعے سے مسلمانوں کے ہاتھوں کفار کو عذاب ہو، جیسا کہ فرمایا : ﴿ قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ ﴾ [ التوبۃ : ۱۴ ] ’’ان سے لڑو، اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے عذاب دے گا۔‘‘ اور بے شک ہم آسمان سے ایسا عذاب بھیجنے پر قادر ہیں جو ان کا صفایا کر دے، مگر ہماری حکمت کا تقاضا انھیں مہلت دینے کا ہے، تاکہ ان میں سے جنھوں نے اسلام قبول کرنا ہے کر لیں اور جن کی آئندہ نسل نے اسلام قبول کرنا ہے وہ نسل وجود میں آ جائے۔