وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی رضا چاہتے ہوئے اور اپنے دلوں کو ثابت رکھتے ہوئے خرچ کرتے ہیں، اس باغ کی مثال جیسی ہے جو کسی اونچی جگہ پر ہو، جس پر ایک زوردار بارش برسے تو وہ اپنا پھل دوگنا دے، پس اگر اس پر زور کی بارش نہ برسے تو کچھ شبنم۔ اور اللہ جو کچھ تم کر رہے ہو اسے خوب دیکھنے والا ہے۔
ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ....: یہ ریا کاروں کے مقابلے میں مخلص مومنوں کی مثال ہے، یعنی جو لوگ محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے خرچ کرتے ہیں اور دل کے اس اطمینان کے ساتھ خرچ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں اس کا وافر اجر عطا فرمائے گا اور ان کا عمل ضائع نہیں ہو گا۔ دل کو ثابت رکھتے ہوئے خرچ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نہ انھیں خرچ کرتے ہوئے کوئی تردد یا پریشانی ہوتی ہے نہ بعد میں کوئی پشیمانی۔ ان کے خرچ کرنے کی مثال اس باغ کی سی ہے جو کسی پر فضا اور بلند مقام پر ہو، اگر اس پر زور کی بارش ہو تو دوسرے باغوں سے دگنا پھل دے اور اگر زور کی بارش نہ بھی ہو تو ہلکی بارش ہی کافی رہے۔ یہی حالت مومن کے عمل کی ہے، وہ کسی صورت میں ضائع نہیں ہو گا، بلکہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا اور ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزا دے گا۔ (ابن کثیر) شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’زور کے مینہ سے مراد زیادہ مال خرچ کرنا ہے اور ’’طَلٌّ‘‘ (کچھ شبنم) سے مراد تھوڑا مال۔ ( ’’طَلٌّ‘‘ پر تنوین تقلیل کی وجہ سے کچھ شبنم ترجمہ کیا ہے) سو اگر نیت درست ہے تو زیادہ خرچ کرنا زیادہ ثواب کا باعث ہے اور تھوڑا بھی کام آتا ہے، جیسے خالص زمین پر باغ ہے، جتنا مینہ برسے گا اس کا فائدہ ہے، بلکہ اوس بھی کافی ہے اور نیت درست نہیں تو جس قدر زیادہ خرچ کرے ضائع ہے، کیونکہ زیادہ مال دینے میں دکھاوا بھی زیادہ ہے، جیسے پتھر پر دانہ کہ جتنا زور کا مینہ برسے زیادہ نقصان پہنچائے کہ مٹی دھوئی جائے۔‘‘ (موضح)