فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُرِيدُ أَن يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَنزَلَ مَلَائِكَةً مَّا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ
تو اس کی قوم میں سے ان سرداروں نے کہا جنھوں نے کفر کیا، یہ نہیں ہے مگر تمھارے جیسا ایک بشر، جو چاہتا ہے کہ تم پر برتری حاصل کرلے اور اگر اللہ چاہتا تو ضرور کوئی فرشتے اتار دیتا، ہم نے یہ اپنے پہلے باپ دادا میں نہیں سنا۔
1۔ فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ : معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کے واضح طور پر الگ الگ قبیلے تھے اور نوح علیہ السلام کا اپنا قبیلہ انکار میں پیش پیش تھا۔ اس لیے انکار اور اعتراض کے اپنوں کی طرف سے ہونے کی شناعت کو واضح کرنے کے لیے ’’مِنْ قَوْمِهٖ ‘‘ فرمایا۔ (بقاعی) اس میں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی ہے، کیونکہ آپ کی سخت ترین مخالفت آپ کے قریب ترین رشتہ دار ابولہب نے کی۔ (دیکھیے سورۂ لہب) ایک شاعر نے کہا : وَ ظُلْمُ ذَوِي الْقُرْبٰي أَشَدُّ مَضَاضَةً عَلَي الْمَرْئِ مِنْ وَقْعِ الْحُسَامِ الْمُهَنَّدِ ’’اور قرابت والوں کا ظلم تکلیف میں آدمی پر ہندی تلوار لگنے سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔‘‘ 2۔ مَا هٰذَا اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ : مفسر رازی نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے پانچ شبہات ذکر فرمائے، مگر جواب کسی کا نہیں دیا، کیونکہ معمولی سے غور کے ساتھ ان کا بے کار ہونا سمجھ میں آ جاتا ہے۔‘‘ ان کا پہلا شبہ یہ تھا کہ یہ تو تمھارے جیسا بشر ہے۔ بقاعی نے فرمایا : ’’انھوں نے کسی انسان کا نبی ہونا نہیں مانا تو لازم تھا کہ کسی مٹی کا انسان ہونا بھی نہ مانتے، پانی کے کسی قطرے کا علقہ ہونا اور خون کی کسی پھٹکی کا مضغہ ہونا بھی نہ مانتے.... ۔‘‘ ابن جَزیّ نے التسہیل میں فرمایا : ’’کس قدر تعجب ہے کہ انھوں نے بشر کے رسول ہونے کو نہیں مانا، مگر پتھر کے رب ہونے کو مان لیا۔‘‘ مشرک کی عقل ایسی ہی ہوتی ہے، ہمارے زمانے کے بعض لوگ جو جدّی پشتی مسلمان ہیں، آبا و اجداد سے سن کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مانتے ہیں مگر بشر نہیں مانتے۔ پہلے لوگوں کا کہنا تھا کہ بشر رسول نہیں ہو سکتا اور ان کا کہنا ہے کہ رسول بشر نہیں ہو سکتا۔ نتیجہ دونوں باتوں کا ایک ہی ہے۔ قرآن نے بشر کے رسول نہ ہونے یا رسول کے بشر نہ ہونے کا بار بار رد فرمایا ہے۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۶۳ تا ۶۹)، یونس (۲)، ہود (۲۷ تا ۳۱)، یوسف (۱۰۹)، رعد (۳۸)، ابراہیم (۱۰، ۱۱)، نحل (۴۳)، بنی اسرائیل (۹۴، ۹۵)، کہف (۱۱۰)، انبیاء (۳)، مومنون (۳۳، ۳۴، ۴۷)، فرقان (۷ تا ۲۰)، شعراء (۱۵۴، ۱۸۶) اور سورۂ یٰس (۱۵)۔ 3۔ يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ: یہ دوسرا شبہ ہے جو کافر سرداروں نے انبیاء کو عوام میں بے وقعت بنانے کے لیے پیش کیا کہ یہ تم پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اکثر کفار نے اپنے اپنے انبیاء کے بارے میں یہی بات کہی کہ یہ اقتدار کے بھوکے ہیں۔ فرعون اور اس کے سرداروں نے موسیٰ اور ہارون علیھما السلام کو یہ طعنہ دیا تھا : ﴿ قَالُوْا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَآءَنَا وَ تَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِيَآءُ فِي الْاَرْضِ﴾ [ یونس : ۷۸ ] ’’انھوں نے کہا کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اس راہ سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور اس سر زمین میں تم دونوں ہی کو بڑائی مل جائے؟‘‘ گویا سرداری اور برتری ان مشرکوں ہی کا مادری و پدری ورثہ ہے، یہ کسی اور کا حق نہیں۔ جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ اگر رسول اپنے منصب کی وجہ سے برتری چاہتے ہیں تو برتری کا حامل ہونا ان کا حق ہے، تاکہ کسی کو ان کے اتباع میں عار نہ ہو اور اگر وہ تکبر اور فخر و غرور کے لیے برتری چاہتے ہیں تو یہ ان پر بہتان ہے، کیونکہ ان سے بڑھ کر کوئی متواضع نہیں ہوتا۔ 4۔ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَاَنْزَلَ مَلٰٓىِٕكَةً : یہ تیسرا اعتراض ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ اللہ کو مانتے تھے، مگر اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے۔ نوح علیہ السلام کی طرف سے ایک اللہ کی عبادت کا حکم سن کر بہانہ گھڑا کہ اگر اللہ چاہتا کہ کوئی رسول بھیجے تو وہ انسان کے بجائے کوئی فرشتے بھیج دیتا۔ یہ بھی درحقیقت بشر کی نبوت سے انکار ہے۔ انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ مالک مرضی والا ہے، وہ جسے چاہے، جس کام کے لیے چاہے چن لیتا ہے۔ وہ مالک ہی کیا ہوا جو تمھارے چاہنے کا پابند ہو۔ 5۔ مَّا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِيْ اٰبَآىِٕنَا الْاَوَّلِيْنَ : یہ چوتھا اعتراض ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نوح علیہ السلام سے پہلے جاہلیت کا طویل عرصہ گزرا تھا۔ پہلی تینوں باتوں میں نوح علیہ السلام کے رسول ہونے کا انکار تھا اور یہ اس دعوت کا انکار ہے جو نوح علیہ السلام لے کر آئے تھے۔ یعنی اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنے کی بات ہم نے نہیں سنی اور نہ یہ سنا ہے کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے یا سفارشی بنانے کے لیے بھی کسی کی عبادت نہ کی جائے۔ کفار کے سرداروں کی یہ بات بھی اس لیے جواب کے قابل نہیں کہ اس کی بنیاد تقلید ہے، جب کہ تقلید سراسر جہل ہے اور جاہلوں کا جواب خاموشی اور سلام متارکہ ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا﴾ [ الفرقان : ۶۳ ] ’’اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے۔‘‘ (دیکھیے بقرہ : ۱۷۰) بھلا بتاؤ اس سے بڑی جہالت کیا ہو گی کہ جو چیز ہم نے سنی نہیں وہ ہے ہی نہیں؟