يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۗ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ
وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور اللہ ہی کی طرف سب کام لوٹائے جاتے ہیں۔
1۔ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ: یہ جملہ قرآن مجید میں چار مقامات پر آیا ہے، سورۂ بقرہ(۲۵۵)، سورۂ طٰہٰ (۱۱۰)، سورۂ انبیاء (۲۸) اور یہاں سورۂ حج میں۔ ہر مقام پر اس جملے سے پہلے یا بعد میں سفارش یا معبودانِ باطلہ کا ذکر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ فرشتوں اور انبیاء و اولیاء کو اگر بذات خود حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر نہیں بلکہ اللہ کے ہاں سفارشی سمجھ کر پکارتے ہو تو یہ بھی غلط ہے، کیونکہ سب کچھ دیکھنے اور سننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ہر شخص کے ظاہر اور مخفی حالات وہی جانتا ہے، دنیا کی کھلی اور چھپی ضرورتیں اور مصلحتیں بھی وہی جانتا ہے، فرشتوں اور نبیوں سمیت کسی مخلوق کو بھی پوری طرح معلوم نہیں کہ کس وقت کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے زیادہ مقرب بندوں کو بھی یہ حق نہیں دیا کہ وہ اس کے اذن کے بغیر جو سفارش چاہیں کر بیٹھیں اور ان کی سفارش قبول بھی ہو۔ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۲۵۵) ﴿مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗ اِلَّا بِاِذْنِهٖ﴾ کی تفسیر۔ 2۔ وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ: شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یعنی وہ (پیغمبر خود) کوئی اختیار نہیں رکھتے، اختیار ہر چیز میں اللہ کا ہے۔‘‘ (موضح)