أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً ۗ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ نے آسمان سے کچھ پانی اتارا تو زمین سر سبز ہوجاتی ہے۔ بے شک اللہ نہایت باریک بین، ہر چیز سے باخبر ہے۔
1۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ....: اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنے کی نعمت کا ذکر فرما کر اپنے حق ہونے اور دوسرے تمام معبودوں کے باطل ہونے کا اور اپنی صفات ’’ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ‘‘ اور’’ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ ‘‘ کا ذکر فرمایا۔ اس کے بعد اپنے ہر چیز پر قادر ہونے کی دلیل کے طور پر اپنی چھ نعمتیں شمار فرمائیں، جن میں سے پہلی نعمت اس آیت میں بیان فرمائی ہے۔ 2۔ ’’ اَلَمْ تَرَ ‘‘ کا لفظی معنی ہے ’’کیا تو نے نہیں دیکھا۔‘‘ یہاں یہ معنی بھی مراد ہو سکتا ہے، کیونکہ بارش برسنا اور زمین کا سر سبز ہونا ہر دیکھنے والے کو نظر آتا ہے۔ مگر عام طور پر قرآن مجید میں ’’ اَلَمْ تَرَ ‘‘ کا لفظ ’’أَلَمْ تَعْلَمْ‘‘ کے معنی میں آیا ہے، یعنی ’’کیا تمھیں معلوم نہیں۔‘‘ دیکھیے سورۂ فیل کی آیت (۱) : ﴿ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ﴾ کی تفسیر۔ یہاں بھی یہی دوسرا معنی زیادہ مناسب ہے، کیونکہ دیکھنے سے مقصود علم ہی ہے اور جس دیکھنے سے علم حاصل نہ ہو وہ کالعدم ہے۔ 3۔ ’’ مَآءً ‘‘ کی تنوینِ تقلیل کی وجہ سے ’’کچھ پانی‘‘ ترجمہ کیا گیا ہے۔ اللہ نے آسمان سے کچھ پانی اتارا تو ’’زمین سرسبز ہوگئی ‘‘ کے بجائے فرمایا ’’زمین سرسبز ہو جاتی ہے۔‘‘ یعنی ماضی کے بجائے مضارع کا لفظ استعمال فرمایا، کیونکہ بارش کا نزول ایک دفعہ ہوتا ہے تو زمین ایک لمبا عرصہ سرسبز رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت دیکھیے کہ زمین مردہ اور پتھر کی طرح سخت تھی، اس کے نیچے خشک بیج مدت سے دفن تھے، رحمت کی بارش برسی تو زمین پھولی اور ابھری، خشک بیج میں زندگی پیدا ہوئی اور نرم و نازک کونپل زمین کا سینہ چیر کر باہر نکلی۔ دیکھتے ہی دیکھتے زمین کا سارا تختہ آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سرور پہنچانے والا سبز رنگ اختیار کر گیا، جو عقل والوں کے لیے دلیل ہے کہ جس اللہ تعالیٰ نے بارش کے ذریعے سے بنجر زمین میں دفن خشک بیج سے پودا پیدا فرمایا وہی قیامت کو اس زمین سے مردہ انسانوں کو ان کی ’’ عَجْبُ الذَّنَبِ ‘‘ (دم کی ہڈی) سے دوبارہ زندہ کر سکتا ہے اور کرے گا۔ [ بخاري، التفسیر، باب ﴿یوم ینفخ فی الصور فتأتون أفواجا ﴾ : ۴۹۳۵ ] بعض مفسرین نے اس میں اس اشارے کا ذکر بھی فرمایا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو بارش کے ذریعے سے زندگی بخشتا ہے، اسی طرح وہ مردہ دلوں کو وحی الٰہی کے ذریعے سے ایمان کی زندگی عطا فرماتا ہے۔ 4۔ زمین سے پیدا ہونے والے پودوں کے پتے، پھول، پھل اور دانے، غرض ہر چیز انسان کے لیے خوراک، لباس اور دوسری ضروریات کے کام آتی ہے اور سبھی اللہ کی نعمتیں ہیں مگر یہاں زمین کے سر سبز ہونے کو خاص طور پر ذکر فرمایا کہ اس سبزے سے آنکھوں کو جو تازگی اور دل کو جو خوشی حاصل ہوتی ہے وہ بجائے خود ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ دوسری نعمتوں کا ذکر چھوڑ دیا کہ انسان خود سوچ لے۔ 5۔ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ: لفظ ’’ لَطِيْفٌ‘‘ میں دو مفہوم شامل ہیں، ایک ’’باریک چیزوں کو دیکھنے والا ‘‘ اور دوسرا ’’نہایت مہربانی والا۔‘‘ ’’ اِنَّ ‘‘ عموماً پہلے جملے کی وجہ بیان کرنے کے لیے آتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتار کر زمین کو سرسبز اس لیے کیا کہ وہ نہایت مہربان بھی ہے، باریک بین بھی اور ہر چیز کی پوری خبر رکھنے والا بھی۔ اسے خوب معلوم ہے کہ زمین کے سینے میں کس جگہ کون سا انسان یا حیوان یا کسی پودے کا باریک سے باریک بیج دفن ہے اور اسی کے لطف و کرم سے یہ سب کچھ دوبارہ زندہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اس سے اپنے بندوں کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی مادی یا اخلاقی ضرورت پوشیدہ نہیں ہے، وہ اپنی کمال مہربانی اور باریک طریقوں سے ایسے انتظام فرماتا ہے کہ ہر بندے کی بلکہ ہر مخلوق کی ضرورت، جو اس کے حسب حال ہے، پوری ہو۔