ذَٰلِكَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنصُرَنَّهُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ
یہ اور جو شخص اس کی مثل بدلہ لے جو اسے تکلیف دی گئی، پھر اس پر زیادتی کی جائے تو اللہ ضرورہی اس کی مدد کرے گا، یقیناً اللہ ضرور نہایت درگزر کرنے والا، بے حد بخشنے والا ہے۔
1۔ ذٰلِكَ وَ مَنْ عَاقَبَ....: ’’ ذٰلِكَ ‘‘ کا لفظ دو کلاموں کے درمیان فاصلے کے لیے ہوتا ہے، یعنی یہ تو ہوا، اب اگلی بات سنو کہ جو شخص اتنا ہی بدلہ لے جتنی اسے ایذا دی گئی ہے، پھر اس پر زیادتی کی جائے تو اللہ اس کی ضرور ہی مدد کرے گا۔ اس میں جہاد کی ترغیب ہے اور ’’ اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ‘‘ اور ’’ وَ لَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ ‘‘ کا مضمون دہرایا گیا ہے۔ عطف اس کا ’’ وَ الَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ....‘‘ پر ہے، جس میں ان مظلوموں کا ذکر تھا جو بدلہ نہیں لے سکے، اب ان مظلوموں کا ذکر ہے جو ظالموں کے مقابلے میں قوت استعمال کریں۔ انھیں تاکید ہے کہ وہ اتنا ہی بدلہ لیں جتنی ان پر زیادتی ہوئی ہے، اگر اتنا بدلہ لینے کے بعد پھر ان پر زیادتی کی جائے تو اللہ تعالیٰ ان کی ضرور ہی مدد کرے گا۔ مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو بے شمار ایذائیں دیں، انھیں دین سے مرتد کرنے کے لیے مسلسل عذاب سے دو چار رکھا، جو قتل سے بھی بڑھ کر تکلیف دہ تھا۔ انھیں ان کے گھروں سے نکالا، اس کے بعد بھی لڑائی کے لیے چڑھ کر آتے رہے۔ ان کی ایذا کے برابر بدلے کے لیے ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَ قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ (190) وَ اقْتُلُوْهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ۠ وَ اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَ الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَ لَا تُقٰتِلُوْهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ كَذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِيْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۱۹۰، ۱۹۱ ] ’’اور اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی مت کرو، بے شک اللہ زیادتی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ اور انھیں قتل کرو جہاں انھیں پاؤ اور انھیں وہاں سے نکالو جہاں سے انھوں نے تمھیں نکالا ہے اور فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو، یہاں تک کہ وہ اس میں تم سے لڑیں، پھر اگر وہ تم سے لڑیں تو انھیں قتل کرو، ایسے ہی کافروں کی جزا ہے۔‘‘ اسی طرح حکم دیا : ﴿وَ اِنْ نَّكَثُوْا اَيْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ فَقَاتِلُوْا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ اِنَّهُمْ لَا اَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ (12) اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْا اَيْمَانَهُمْ وَ هَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَ هُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ اَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ﴾ [ التوبۃ : ۱۲، ۱۳ ] ’’اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمھارے دین میں طعن کریں تو کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو۔ بے شک یہ لوگ، ان کی کوئی قسمیں نہیں ہیں، تاکہ وہ باز آجائیں۔ کیا تم ان لوگوں سے نہ لڑو گے جنھوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں اور رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا اور انھوں نے ہی پہلی بار تم سے ابتدا کی؟کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ تو اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔‘‘ 2۔ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ : یہاں ان صفات کے تذکرے کا مطلب یہ نہیں کہ کفار کو معاف کر دو، کیونکہ ان کے متعلق تو حکم ہے : ﴿قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَ يُخْزِهِمْ وَ يَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَ يَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُؤْمِنِيْنَ ﴾ [ التوبۃ : ۱۴ ] ’’ان سے لڑو، اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انھیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمھاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا۔‘‘ عفو و درگزر مسلمانوں کے باہمی معاملات میں ہے، کفار کے ساتھ نہیں، فرمایا : ﴿ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ ﴾ [ الفتح : ۲۹ ] ’’اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں، کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں۔‘‘ یہاں ان صفات کی مناسبت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف اتنا ہی بدلہ لینے کا جو حکم دیا ہے کہ جتنی ایذا دی جائے، یہ اس کے عفو و مغفرت کی وجہ سے ہے کہ اس نے کفار پر بھی حد سے بڑھ کر زیادتی کی اجازت نہیں دی، جس سے وہ مظلوم ٹھہریں، کیونکہ مظلوم کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لے رکھا ہے، خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اِتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُوْمِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللّٰهِ حِجَابٌ )) [ بخاري، المظالم، باب الاتقاء و الحذر من دعوۃ المظلوم : ۲۴۴۸، عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنھما ] ’’مظلوم کی بددعا سے بچ، کیونکہ اس کے درمیان اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں۔‘‘ دوسری مناسبت یہ ہے کہ بدلہ لینے میں سو فیصد برابری تو انسان کے بس ہی میں نہیں، اس لیے فرمایا کہ کچھ کمی بیشی ہو جائے تو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔