سورة البقرة - آیت 259

أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْيِي هَٰذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۖ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَانظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ ۖ وَانظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یا اس شخص کی طرح جو ایک بستی پر گزرا اور وہ اپنی چھتوں پر گری ہوئی تھی، اس نے کہا اللہ اس کو اس کے مرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا ؟ تو اللہ نے اسے سو (١٠٠) سال تک موت دے دی، پھر اسے زندہ کیا، فرمایا تو کتنی دیر رہا ہے؟ اس نے کہا میں ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہا ہوں۔ فرمایا بلکہ تو سو (١٠٠) سال رہا ہے، سو اپنے کھانے اور اپنے پینے کی چیزیں دیکھ کہ بگڑی نہیں اور اپنے گدھے کو دیکھ اور تاکہ ہم تجھے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں اور ہڈیوں کو دیکھ ہم انھیں کیسے اٹھا کر جوڑتے ہیں، پھر ان کو گوشت پہناتے ہیں۔ پھر جب اس کے لیے خوب واضح ہوگیا تو اس نے کہا میں جانتا ہوں کہ بے شک اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰى قَرْيَةٍ:اس ’’اَوْ ‘‘ کا عطف اس سے پہلی آیت ”اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ“ میں مذکور ”الَّذِيْ“ پر ہے، یعنی کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے.... یا کیا تو نے اس جیسے شخص کو نہیں دیکھا......۔ ”اَلَمْ تَرَ“ کا معنی ”اَلَمْ تَعْلَمْ“ ہوتا ہے۔ (دیکھیے سورۂ فیل کے حواشی) اور ”اَلَمْ تَرَ“ سے مقصود کوئی عجیب واقعہ بیان کرنے سے پہلے اس کے سننے کا شوق دلانا ہوتا ہے۔ خَاوِيَةٌ:یہ باب ”ضَرَبَ“ سے اسم فاعل ہے، مادہ ’’خ و ی‘‘ ہے، جس کا معنی کھوکھلا ہونا ہے۔ چونکہ کھوکھلا ہونے کا نتیجہ گر پڑنا ہے، اس لیے اس کا معنی گر پڑنا بھی آتا ہے، عموماً پہلے چھت گرتی ہے پھر دیواریں اس پر گر پڑتی ہیں، اس لیے فرمایا:’’چھتوں پر گری ہوئی تھی۔‘‘ لَمْ يَتَسَنَّهْ:اس لفظ کا مادہ یا تو ’’ س ن ن ‘‘ ہے، جس کا معنی بدبو دار ہونا ہے، جیسے فرمایا:﴿مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ﴾ [الحجر:۲۶ ] ’’جو بدبودار، سیاہ کیچڑ سے تھی۔‘‘باب تفعل میں’’ لَمْ يَتَسَنَّنْ ‘‘ہو گیا، پھر آخری نون کو ’’ہاء ‘‘سے بدل دیا، جیسے:”لَمْ يَتَقَضَّضِ الْبَازِيْ“ (باز تیزی سے نہیں جھپٹا) کو ”لَمْ يَتَقَضَّهْ“ کر دیتے ہیں، یا پھر اس کا مادہ ’’سن ن ہ ‘‘ ہے، اس سے باب تفعل ”تَسَنَّهَ“ کا معنی روٹی کا بدبودار ہونا ہے، اس صورت میں ’’ہاء ‘‘ اصل ہے، تو ”لَمْ يَتَسَنَّهْ“ کا معنی ہے، بدبودار نہیں ہوا۔ 4۔ پہلے قصے سے کائنات کو بنانے والے کا ایک ہونا (یعنی توحید) بیان کرنا مقصود تھا، جبکہ اس قصے اور اس کے بعد والے قصے سے حشر و نشر ثابت کرنا مقصود ہے۔ اس آیت میں مذکور شخص سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ کوئی ذکر نہیں ملتا کہ وہ کون تھا۔ بعض تابعین نے اس کا نام عزیر علیہ السلام بتایا ہے اور بعض نے ارمیا، اور ظاہر ہے کہ اس کا ماخذ وہ اسرائیلی روایات ہیں جنھیں نہ سچا کہا جا سکتا ہے نہ ہی جھوٹا۔ واللہ اعلم ! البتہ یہ بات یقینی ہے کہ وہ اللہ کے نبی تھے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا ان سے پوچھنا اور پھر اصل مدت بتانا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ اللہ کے نبی تھے تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کا اس بستی کو دوبارہ زندہ کرنا بعید کیوں سمجھا؟ جواب اس کا یہ ہے کہ انھوں نے بعید سمجھ کر یہ سوال نہیں کیا تھا اور نہ انھیں قیامت اور دوبارہ زندہ ہونے میں کوئی شک تھا، بلکہ اس سے اطمینان حاصل کرنا مقصود تھا اور وہ دوبارہ زندہ ہونے کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کو بعض حقیقتوں کا آنکھوں سے مشاہدہ کروا دیتا ہے۔ ان دونوں واقعات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جس شخص کا دوست اور کار ساز اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اسے کس طرح اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آتا ہے۔ (رازی) معلوم ہوتا ہے کہ جب اس نبی نے وفات پائی تھی تو اس وقت کچھ دن چڑھا ہوا تھا اور جب دوبارہ زندہ ہوئے تو سورج غروب ہونے کو تھا، اس لیے انھوں نے سو سال گزرنے کے باوجود یہ سمجھا کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ گزرا ہے۔