فَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
تو وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ان کے لیے سراسر بخشش اور باعزت رزق ہے۔
1۔ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: یہ بشارت کی آیت ہے۔ ’’مَغْفِرَةٌ ‘‘ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ عظیم بخشش کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ایمان میں دل سے تصدیق، زبان سے اقرار اور اعضاء سے عمل تینوں چیزیں شامل ہیں، مگر اعمال صالحہ کا الگ ذکر خاص طور پر تاکید کے لیے فرمایا، کیونکہ اس میں عموماً کوتاہی ہوتی ہے۔ 2۔ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِيْمٌ: اس سلسلۂ کلام کا آغاز قتال کے اذن سے ہوا ہے، اس وقت مسلمان کفار کے ظلم و ستم کی وجہ سے گھروں سے بے گھر تھے اور مالی طور پر بھی نہایت تنگی کی حالت میں تھے، اس لیے انھیں بشارت دینے کا حکم ہوا کہ ایمان اور عمل صالح کے حامل مجاہد افراد کے لیے عظیم بخشش بھی ہے اور باعزت رزق بھی۔ باعزت رزق سے مراد دنیا میں مال غنیمت اور آخرت میں جنت ہے کہ دونوں میں اللہ کے سوا کسی کے احسان کا بار نہیں ہے۔