إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور وہ اللہ کے راستے سے اور اس حرمت والی مسجد سے روکتے ہیں جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے اس طرح بنایا ہے کہ اس میں رہنے والے اور باہر سے آنے والے برابر ہیں اور جو بھی اس میں کسی قسم کے ظلم کے ساتھ کسی کج روی کا ارادہ کرے گا ہم اسے درد ناک عذاب سے مزہ چکھائیں گے۔
1۔ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ: ابن عاشور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ ’’وَ هُدُوْا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِيْدِ ‘‘ کے مقابلے میں ہے کہ اہل ایمان کو اللہ (الْحَمِيْدِ) کے راستے کی ہدایت عطا ہوئی، جب کہ کفار کا یہ حال ہے کہ وہ خود بھی راہ ہدایت اختیار کرنے کا انکار کر چکے ہیں اور لوگوں کو بھی اللہ کے راستے (اسلام) اور مسجد حرام سے مسلسل روک رہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ مومنوں کے لیے جنت اور کافروں کے لیے عذابِ الیم ہے۔ ’’كَفَرُوْا‘‘ ماضی ہے اور ’’ يَصُدُّوْنَ ‘‘ مضارع، یعنی وہ کافر تو گزشتہ زمانے سے ہو چکے، البتہ ان کا لوگوں کو اسلام سے اور مسجد حرام سے روکنے کا عمل مسلسل جاری ہے۔ ماضی پر مضارع کے عطف کی ایک اور مثال اس آیت میں ہے : ﴿ اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ ﴾ [ الرعد : ۲۸ ]کفار مسلمانوں کو ہجرت سے پہلے بھی مسجد حرام میں آنے، نماز پڑھنے اور طواف کرنے سے روکتے تھے، (علق : ۹، ۱۰) اور ہجرت کے بعد بھی جب وہ سن ۶ ہجری میں عمرہ کرنے کے لیے آئے تو کفار نے انھیں عمرہ کرنے سے منع کر دیا۔ دیکھیے سورۂ فتح (۲۵، ۲۶) اور بقرہ (۲۱۷) نتیجہ یہ کہ اللہ کے راستے سے روکنے کی وجہ سے کفار عذاب الیم کے حق دار ٹھہرے جب کہ مسلمان اللہ کے راستے (صِرَاطِ الْحَمِيْدِ) پر چلنے کی وجہ سے جنت میں داخل ہوں گے۔ 2۔ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِيْ جَعَلْنٰهُ لِلنَّاسِ ....: اگرچہ اللہ کے راستے سے روکنے میں مسجد حرام سے روکنا بھی شامل تھا مگر اسے علیحدہ ذکر فرمایا۔ مقصود مسجد حرام کی عظمت کو نمایاں کرنا ہے اور اس مناسبت سے اس کی تعمیر، حج کی ابتدا، طواف اور دوسرے چند احکام، پھر قربانی، اس کی حکمت اور اہمیت کی طرف منتقل ہونا ہے۔ 3۔ ’’ الْعَاكِفُ ‘‘ کا لفظی معنی ’’اپنے آپ کو روک کر رکھنے والا‘‘ ہے اور مراد مکہ کا باشندہ ہے، کیونکہ اس کے مقابلے میں ’’الْبَادِ ‘‘ آ رہا ہے، یعنی ’’بادیہ‘‘ (باہر) سے آنے والا۔ کفار کے ظلم کا بیان ہے کہ وہ اس مسجد سے لوگوں کو روکتے ہیں جس میں عبادت، طواف، عمرہ اور حج کے لیے آنا سب لوگوں کا برابر حق ہے، خواہ مکہ کے رہائشی ہوں یا باہر سے آنے والے۔ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَا بَنِيْ عَبْدِ مَنَافٍ ! لَا تَمْنَعُوْا أَحَدًا طَافَ بِهٰذَا الْبَيْتِ وَصَلَّی أَيَّةَ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ )) [ ترمذي، الحج، باب ما جاء في الصلاۃ بعد العصر....: ۸۶۸ ] ’’اے بنی عبد مناف! کسی شخص کو مت روکو جو رات یا دن کی کسی گھڑی میں اس گھر کا طواف کرنا چاہے یا (اس میں) نماز پڑھنا چاہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ مسجد حرام میں نماز کے ممنوعہ اوقات میں بھی نماز اور طواف جائز ہے۔ 4۔ تیسیر القرآن میں ہے کہ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے حقوق ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ اور باہر سے آنے والے لوگوں کو برابر کے حصے دار قرار دیا ہے اور آیا ان حقوق کا اور ان کی برابری کا تعلق صرف بیت الحرام یا کعبہ سے ہے یا پورے حرم مکہ سے؟ جہاں تک صرف بیت اللہ کا تعلق ہے اور اس میں نماز، طواف اور ارکان حج بجا لانے کا تعلق ہے تو اس میں اہل مکہ اور بیرونی حضرات کے اس حق عبادت میں کسی کو بھی اختلاف نہیں۔ اہل مکہ کو قطعاً یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ بیرونی حضرات کو حرم میں داخل ہونے، نمازیں ادا کرنے، طواف کرنے یا ارکان حج و عمرہ بجا لانے سے روکیں، کیونکہ اس حق میں اہل مکہ اور بیرونی حضرات سب برابر کے حصے دار ہیں۔ اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا اس حق کا تعلق پورے حرم مکہ سے بھی ہے یا نہیں؟ یعنی کیا پورے حرم مکہ کے دروازے باہر سے آنے والے حضرات کے لیے کھلے رہنے چاہییں کہ وہ جب چاہیں حرم مکہ کے اندر موجود جس جگہ چاہیں آ کر ڈیرے ڈال دیں اور رہیں سہیں اور ان سے کوئی کرایہ وغیرہ بھی وصول نہ کیا جائے؟ اس اختلاف کی دو وجہیں ہیں، ایک یہ کہ ارکان حج میں سے بیشتر کا تعلق صرف بیت اللہ سے نہیں بلکہ حرم مکہ سے ہے۔ صفا، مروہ، منیٰ، مزدلفہ، مشعر حرام سب بیت اللہ کی حدود سے باہر ہیں، جب کہ حرم مکہ میں داخل ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود بعض مقامات پر مسجد حرام کا ذکر کرکے اس سے حرم مکہ مراد لیا ہے، مثلاً ارشاد باری ہے : ﴿ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ [ البقرۃ :۱۹۶] ’’یہ (رعایت) اس شخص کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں۔‘‘ اور یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی شخص مسجد حرام کے اندر رہائش پذیر نہیں ہوتا، یہاں لازماً مسجد حرام سے مراد حرم مکہ ہی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿ وَ صَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ كُفْرٌۢ بِهٖ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ﴾ [ البقرۃ : ۲۱۷ ] ’’اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور اس کے رہنے والوں کو اس سے نکالنا اللہ کے نزدیک (ماہ حرام میں جنگ کرنے سے) زیادہ بڑا ہے۔‘‘ پھر اس سے اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا حرم میں زمین اور مکان کی خرید و فروخت اور اس سے آگے ان کی ملکیت و وراثت بھی جائز ہے یا نہیں؟ تو یہ بات تو صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اسلام سے پہلے مکہ کے مکانات اور زمینوں پر لوگوں کے ملکیت و وراثت اور بیچنے اور کرایہ پر دینے کے حقوق قائم تھے جو اسلام کے بعد بھی قائم رہے، اسلام نے انھیں منسوخ نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد عقیل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر قبضہ کر لیا، پھر اسے بیچ بھی دیا، چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کہاں قیام فرمائیں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَهَلْ تَرَكَ عَقِيْلٌ مِنْ رِبَاعٍ أَوْ دُوْرٍ )) [بخاري، الحج، باب توریث دور مکۃ و بیعہا و شرائہا....: ۱۵۸۸ ] ’’کیا عقیل نے ہمارا کوئی مکان چھوڑا بھی ہے (جس میں ہم رہیں)؟‘‘ نیز عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نافع بن عبد الحارث نے مکہ میں صفوان بن امیہ سے ایک گھر جیل خانہ بنانے کے لیے اس شرط پر خریدا کہ اگر عمر رضی اللہ عنہ اس خریداری کو منظور کریں گے تو بیع پوری ہو گی، بصورت دیگر صفوان کو چار سو دینار مل جائیں گے۔ [ بخاري، في الخصومات، باب الربط والحبس في الحرم، قبل ح : ۲۴۲۳ ] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حرم میں مکانوں کی خرید و فروخت جائز ہے (وہ چار سو دینار عمر رضی اللہ عنہ کا حکم آنے تک کے عرصے کا کرایہ شمار ہوں گے یا اتنی دیر تک فروخت سے روک رکھنے کا زر تلافی)۔ کچھ حضرات نے بخاری کی صحیح روایات کے مقابلے میں ضعیف روایات کے ساتھ مکہ کے مکانات کی خرید و فروخت اور انھیں کرایہ پر دینے کو حرام ٹھہرایا ہے، ان روایات میں سے ایک بھی صحیح سند کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، کوئی منقطع ہے، کوئی مرسل اور کسی میں کوئی راوی ضعیف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے قول سے دین کا مسئلہ ثابت نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مکہ کے مکانوں کا کرایہ نہ لینا مستحب ہے، تاہم اس کے جواز سے انکار مشکل ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کا اپنا موقف یہ ہے کہ حرم مکہ میں مکانوں کی خرید و فروخت اور وراثت وغیرہ جائز ہے، جیسا کہ عنوان ’’بَابُ تَوْرِيْثِ دُوْرِ مَكَّةَ وَ بَيْعِهَا وَ شِرَائِهَا‘‘ (اس بات کا بیان کہ مکہ میں موجود مکانات میراث ہو سکتے ہیں اور ان کی خرید و فروخت جائز ہے) سے معلوم ہو رہا ہے۔ 5۔ وَ مَنْ يُّرِدْ فِيْهِ بِاِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ ....: ’’اِلْحَادٌ‘‘ سیدھے راستے سے ہٹ جانا۔ ظلم کا لفظ عام ہے جس میں سب سے پہلے کفر و شرک آتا ہے، پھر کوئی بھی کام کرنا جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے، یا کوئی کام ترک کرنا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، اس میں بدعت بھی شامل ہے اور گناہ کا کوئی اور کام بھی، مثلاً حرم کی حرمت کا خیال نہ رکھنا، یعنی حرم کے جانوروں کو ذبح کرنا، اس کے درختوں کو کاٹنا، کسی کی گم شدہ چیز اٹھانا، الا یہ کہ اسے استعمال نہ کرے اور اس کا اعلان ہمیشہ کرتا رہے، اس میں ذخیرہ اندوزی کرنا۔ غرض دوسری جگہوں میں ٹیڑھی راہ اختیار کرنا عذابِ الیم کا باعث ہے مگر حرم مکہ میں اس کا ارادہ بھی عذابِ الیم کا باعث ہے۔