إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ
بے شک اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، انھیں اس میں کچھ سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور موتی بھی اور ان کا لباس اس میں ریشم ہوگا۔
1۔ اِنَّ اللّٰهَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ....: ’’ يُحَلَّوْنَ ‘‘ ’’حَلَّي يُحَلِّيْ تَحْلِيَةً‘‘ (تفعیل)سے مضارع مجہول ہے۔ اسی سے ’’حِلْيَةٌ‘‘ بمعنی زیور ہے۔ ’’ اَسَاوِرَ‘‘ ’’أَسْوِرَةٌ‘‘ کی جمع ہے جو خود ’’سِوَارٌ‘‘ کی جمع ہے۔ جمع الجمع ان کنگنوں کی کثرت اور حسن و خوبی کے بیان کے لیے استعمال ہوئی ہے۔ ’’مِنْ اَسَاوِرَ‘‘میں’’مِنْ‘‘ تبعیض کے لیے ہے، یعنی کچھ کنگن سونے اور موتیوں کے ہوں گے اور کچھ ایسے ہوں گے جو تم نہیں جانتے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ﴾ [ السجدۃ : ۱۷ ] ’’پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے۔‘‘ توحید ربانی کے بارے میں باہمی معرکہ آرا گروہوں میں سے ’’ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ‘‘ کے عذاب کے ذکر کے بعد ’’ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ‘‘ کے ثواب کا ذکر ہو رہا ہے۔ ابتدا اس کی حرف تاکید ’’ اِنَّ ‘‘ سے ہے اور کفار کے ہر عذاب کے مقابلے میں اہل ایمان کے لیے کسی نہ کسی نعمت کا ذکر ہے۔چنانچہ ’’ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا‘‘، ’’ كُلَّمَا اَرَادُوْا اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَا‘‘کے مقابلے میں ہے۔ ’’تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ‘‘، ’’يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِيْمُ ‘‘ کے مقابلے میں ہے۔ ’’ وَ لِبَاسُهُمْ فِيْهَا حَرِيْرٌ ‘‘ ، ’’ قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ ‘‘ کے مقابلے میں ہے۔ ’’ يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ ‘‘، ’’ وَ لَهُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيْدٍ ‘‘ کے مقابلے میں ہے اور ’’ وَ هُدُوْا اِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ ‘‘، ’’ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ ‘‘ کے مقابلے میں ہے، کیونکہ جنتیوں کے لیے طیب بات ’’سلام‘‘ ہے تو جہنمیوں کے لیے بری بات ’’جلنے کا عذاب چکھو‘‘ ہے۔ 2۔ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ لُؤْلُؤًا : عورتوں کے لیے سونے اور موتیوں کے زیور تو معروف بات ہے، رہے مرد تو گزشتہ زمانے میں بادشاہ اور بڑے بڑے رئیس زینت اور اپنی شان و شوکت کے اظہار کے لیے کنگن اور موتی پہنا کرتے تھے۔ اس آیت سے مقصود یہ بتانا ہے کہ اہل ایمان کو جنت میں شاہانہ لباس پہنایا جائے گا۔ مزید دیکھیے سورۂ کہف (۳۱)۔ 3۔ وَ لِبَاسُهُمْ فِيْهَا حَرِيْرٌ: ’’ حَرِيْرٌ ‘‘ سے مراد خالص ریشم ہے، جس کا استعمال مردوں کے لیے دنیا میں حرام ہے۔ انس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ لَبِسَ الْحَرِيْرَ فِي الدُّنْيَا فَلَنْ يَلْبَسَهُ فِي الْآخِرَةِ )) [ بخاري، اللباس، باب لبس الحریر للرجال....:۵۸۳۲۔ مسلم:۷۳]’’جس شخص نے دنیا میں ریشم پہنا وہ اسے آخرت میں ہر گز نہیں پہنے گا۔‘‘