إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصَارَىٰ وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور جو یہودی بنے اور صابی اور نصاریٰ اور مجوس اور وہ لوگ جنھوں نے شرک کیا یقیناً اللہ ان کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کرے گا۔ بے شک اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔
1۔ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِيْنَ هَادُوْا....: گزشتہ آیات میں ایمان والوں کے علاوہ مختلف لوگوں کا ذکر ہوا، کچھ قیامت کے منکر، کچھ کنارے پر رہ کر عبادت کرنے والے، کچھ اللہ کے ساتھ شریک بنانے والے وغیرہ۔ اس پر سوال پیدا ہوا کہ اتنے مختلف عقائد کے لوگ جو اپنی اپنی بات پر اس قدر پختہ ہیں کہ واضح دلائل کے باوجود اپنی بات نہیں چھوڑتے، آخر کبھی ان کے جھگڑے کا فیصلہ بھی ہو گا؟ فرمایا، ان کے جھگڑے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی قیامت کے دن فرمائے گا، جب مومن جنت اور کافر جہنم میں جائیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا میں ان کے حق یا باطل پر ہونے کا فیصلہ نہیں ہوا۔ یقیناً ہوا ہے اور قرآن مجید کا نام فرقان اسی لیے ہے۔ یہ کلام ایسے ہی ہے جیسے بحث ختم کرنے کے لیے بات اللہ کے سپر دکر دی جاتی ہے، حالانکہ بات کرنے والے کو اپنے سچا ہونے کا اور فریق مخالف کے خطا پر ہونے کا یقین ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿لَنَا اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ اَللّٰهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا وَ اِلَيْهِ الْمَصِيْرُ ﴾ [ الشورٰی : ۱۵ ] ’’ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمھارے لیے تمھارے اعمال۔ ہمارے درمیان اور تمھارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں، اللہ ہمیں آپس میں جمع کرے گا اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ 2۔ مومنین، یہود، نصاریٰ اور صابئین کا بیان سورۂ بقرہ (۶۲) میں گزر چکا ہے، وہاں ملاحظہ فرمائیں، یہاں مجوس اور مشرکین کا مزید ذکر ہے۔ مجوس سے مراد آتش پرست ہیں جو دو خالق مانتے ہیں، ایک خالق خیر (یزدان) اور ایک خالق شر (اہرمن) یہ لوگ اپنے آپ کو زرتشت کا پیرو کہتے ہیں اور کسی نبی کا نام بھی لیتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ لوگ بعد میں گمراہ ہوئے یا شروع ہی سے غلط تھے۔ مزدک نے ان کے مذہب اور اخلاق کو بری طرح مسخ کرکے رکھ دیا، حتیٰ کہ حقیقی بہن سے نکاح بھی ان کے ہاں جائز قرار دیا گیا۔ ’’ وَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا ‘‘ (وہ لوگ جنھوں نے شرک کیا) سے مراد عرب اور دوسرے ملکوں کے وہ مشرک ہیں جنھوں نے مندرجہ بالا گروہوں میں سے کسی کا نام اختیار نہیں کیا تھا، مثلاً گائے اور بتوں کے پجاری ہندو۔ قرآن مجید انھیں مشرکین اور ’’ وَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا‘‘ کے نام سے ذکر کرتا ہے، اگرچہ موحد مسلمانوں کے سوا مندرجہ بالا سب مذاہب میں شرک کی کوئی نہ کوئی قسم ضرور پائی جاتی ہے۔ 3۔ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ: یعنی ان تمام گروہوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کا فیصلہ حاکمانہ اختیار کی وجہ سے اندھا فیصلہ نہیں ہو گا، بلکہ عین عدل و انصاف ہو گا، کیونکہ ہر چیز اس کے سامنے ہے، وہ ہر چیز پر گواہ ہے اور ہر ایک کو اس کے عمل کے عین مطابق جزا یا سزا دے گا۔