سورة الحج - آیت 8

وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اللہ کے بارے میں بغیر کسی علم کے اور بغیر کسی ہدایت کے اور بغیر کسی روشن کتاب کے جھگڑا کرتا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ....: یہاں ایک سوال ہے کہ یہی الفاظ اس سے پہلے آیت (۳) میں گزرے ہیں، پھر انھیں دوبارہ لانے میں کیا حکمت ہے؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ وہاں قیامت کے قیام پر اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے متعلق ان کج بحث جھگڑالوؤں کا ذکر ہے جو علم سے سراسر عاری اور محض مقلد ہیں اور ہر سرکش شیطان کے پیچھے چلتے ہیں۔ جبکہ یہاں ان جھگڑالوؤں کا ذکر ہے جو گمراہی کے پیشوا ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں، دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ جس طرح پہلی آیت : ’’ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ ‘‘ میں واؤ سے پہلے کچھ لوگوں کا ذکر محذوف ہے (آیت : ۳ کی تفسیر ایک بار پھر دیکھ لیں) اسی طرح موقع کی مناسبت سے یہاں بھی ’’ وَ مِنَ النَّاسِ ‘‘ کی واؤ سے پہلے کچھ لوگوں کا ذکر محذوف ہے، یعنی جو لوگ انسان کی پیدائش اور مردہ زمین کو زندہ کرنے کے دلائل سے پہلے قیامت اور اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان نہیں لا رہے تھے ان قطعی دلائل کے بعد ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو ایمان لے آتے ہیں اور کچھ ایسے ہٹ دھرم اور عقل و شعور سے عاری ہیں جو کسی بھی دلیل کے بغیر محض تکبر کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ خود ایمان نہیں لاتے، بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّ لَا هُدًى....: علم سے مراد بدیہی اور فطری دلیل ہے جو کسی غوروفکر کے بغیر ہر ایک کی سمجھ میں آتی ہے۔ ’’هُدًى ‘‘ سے مراد غور و فکر اور نظر و استدلال سے حاصل ہونے والی عقلی دلیل ہے اور ’’كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ‘‘سے مراد آسمان سے نازل ہونے والی کتابوں میں صحیح ثابت ہونے والی کوئی دلیل نقلی ہے۔ یعنی اس کے پاس قیامت کے انکار یا اللہ تعالیٰ کے وجود یا اس کی قدرت کے انکار کی کوئی فطری دلیل ہے نہ عقلی اور نہ نقلی۔ اس کے جھگڑے کا باعث صرف تکبر ہے۔ ثَانِيَ عِطْفِهٖ: ’’ثَنٰي يَثْنِيْ ثَنْيًا‘‘ بروزن ’’لَوَي يَلْوِيْ لَيًّا‘‘ (ض)موڑنے کے معنی میں آتا ہے۔ ’’ ثَنٰي عِنَانَ فَرَسِهِ‘‘ اس نے اپنے گھوڑے کی باگ موڑی۔ جھکانے کے معنی میں بھی آتا ہے : ﴿ اَلَا اِنَّهُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ ﴾ [ھود:۵] ’’سن لو! بلاشبہ وہ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں۔‘‘’’عِطْفٌ‘‘ کا معنی کندھا بھی ہے اور پہلو بھی۔ یہ اس کے تکبر کی تصویر ہے کہ وہ کس طرح پہلو موڑتے ہوئے اور گردن کشی کرتے ہوئے حق سے اعراض کرتا ہے۔ لَهٗ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ : مراد مسلمانوں کے ہاتھوں قتل، شکست، اسیری یا محکومی ہے، جیسا کہ بدر، احد، خندق، فتح خیبر، فتح مکہ اور فتح طائف اور دوسری بے شمار جنگوں میں ہوا۔ مزید ذلت و رسوائی یہ کہ مال و اولاد کی فراوانی کے باوجود ’’مَعِيْشَةً ضَنْكًا ‘‘ (طٰہٰ : ۱۲۴) اور اموال و اولاد کے ذریعے سے مسلسل عذاب ہے۔ دیکھیے سورۂ توبہ (۵۵) جو دنیا میں کفار کا اور حق تعالیٰ کی یاد سے منہ موڑنے والے ہر شخص کا مقدر ہے۔